38

آپریشن عزم استحکام،چینی خدشات پر پاکستان کافوری رد عمل

اسلام آباد (بیوروچیف) پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن عزم استحکام کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی کی ذمہ داری فوج پر ڈال کر صوبائی حکومتیں بری الذمہ نہیں ہو سکتیں۔ وزیراعظم کی زیرِ صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے کے مطابق پاکستان کی بقا کے لیے شدت پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ناگزیر ہے۔ کسی کو بھی ریاستی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اسلام آباد میں پاک چین مشاورتی میکانزم نامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہمسایہ ملک چین کے وزیر لیو جیان چا نے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو اندرونی استحکام اور بہتر سکیورٹی سے مشروط قرار دیا تھا۔اس مطالبے کے فورا بعد پاکستان میں سیاسی ہلچل پیدا ہوئی۔ پھر سنیچر کو نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ملکی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف فوج پر ڈالنے کی بجائے صوبوں سے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی۔اجلاس کے اعلامیے میں نہ صرف ملک میں چینی شہریوں کی سکیورٹی کے حوالے سے ایس او پیز وضع کرنے کی بات کی گئی ہے بلکہ دہشتگردی کے خاتمے لیے ایک نئے فوجی آپریشن عزمِ استحکام آپریشن کا بھی اعلان کیا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمالیہ سے اونچی دوستی کے باوجود چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے یہاں اندرونی استحکام کا مطالبہ کیوں کیا اور کیا یہ اب بھی پاکستان میں مزید سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے؟اسلام آباد میں پاک چین مشاورتی میکانزم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیر لیوجیان چا نے کہا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاہدوں سے ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوں گے لیکن ترقی کے لیے اندرونی استحکام ضروری ہے۔چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اہم رکن اور وزیر نے پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کے سامنے یہ واضح کیا کہ سرمایہ کاری کے لیے سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا ہو گا۔انھوں نے کہا کہ بہتر سکیورٹی سے تاجر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔پاکستان کے سیاسی حالات پر تبصرہ کیے بغیر چینی وزیر نے کہا کہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر چلنا ہو گا۔چینی وزیر نے کہا کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق سکیورٹی خطرات بڑی رکاوٹیں ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ اعتماد سونے سے بھی زیادہ قیمتی شے ہے۔لیو جیان نے کہا کہ پاکستان کے معاملے میں بنیادی طور سکیورٹی صورتحال ایسی شے ہے جو چینی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہی ہے۔ہمیں اس صورتحال کو بہت سنجیدگی سے لینا ہو گا اور سی پیک فرینڈلی میڈیا انوائرمنٹ یقینی بنانا ہو گا۔اسی اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار نے سی پیک پر تمام جماعتوں کے اتفاق پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے سے پاک چین دوستی مزید مضبوط ہوگی۔خیال رہے کہ اس اجلاس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر اور رف حسن بھی موجود تھے۔سی پیک کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار خرم خسین کا خیال ہے کہ سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان اور چین کے موقف میں تضاد ہے۔انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان کہتا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری آئے گی۔ جبکہ چین کہتا ہے کہ اپنا گھر درست کرو۔ اب وہ سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ان کے مطابق چین چاہتا ہے کہ اسے اب قرضے واپس ملیں جبکہ پاکستان اس طرح اپنا موقف پیش کر رہا ہے کہ جیسے چینی قطار میں لگ کر بس سرمایہ کاری کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔چینی وزیر کے خطاب کے بعد وزارت داخلہ کی طرف سے بھی ایک اعلامیہ جاری ہوا تھا جس کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت سکیورٹی امور کے حوالے سے اجلاس میں چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں متعلقہ اداروں کی جانب سے سکیورٹی پلان اور مجموعی صورتحال پر بریفنگ دی گئی جبکہ اجلاس میں ملک میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔چینی وزیر لیوجیان چا نے وزیراعظم شہاز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقاتیں کیں۔ان ملاقاتوں کے فورا بعد وزیراعظم کی صدارت میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا، جس میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے سنیچر کو فوج کی جانب سے آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ریاست کو صرف ایک ادارے پر چھوڑنا فاش غلطی ہو گی، ہم سب کو ذمہ داری لینا ہو گی۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملک کی پائیدار ترقی کے لیے استحکام اور قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ ریاست کی عملداری کو نافذ کرنا میری اور ہم سب کی ذمہ داری ہے۔انھوں نے کہا کہ توقع ہے (تمام) صوبے دہشتگردی کے خلاف بھرپور حصہ ڈالیں گے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت کا پوری طرح واضح ہونا ضروری ہے۔وزیر اعظم نے مزید کہا کہ افواج دہشتگردی کے خلاف جو جنگ کر رہی ہے اس کے اخراجات وفاق اٹھاتا ہے، حکومت کی آواز کو مضبوط بنانے کے لیے قوانین بنائیں گے، دہشتگردی کے خلاف فوج کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑیں گے۔دورہ چین کے حوالے سے مبینہ منفی مہم پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قومی بیانیے کو داغدار بنانے کی مہم کو ناکام بنانا ہو گا، پاکستان کے دشمنوں نے سوشل سپیس کو زہر آلود کر رکھا ہے۔ دورہ چین کے موقع پر بھی منفی مہم چلائی گئی۔انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسے قوانین بنانے ہوں گے جو نفرت کی زبان کو ختم کر سکیں۔۔۔ اظہار رائے کا غلط استعمال اور آئین کی دھجیاں اڑانے سے بڑا کوئی جرم نہیں ہو سکتا۔ ایسے قوانین بنانے ہوں گے جو نفرت اور تقسیم کے بیانیے ختم کر سکیں۔انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ چین نے پاکستان میں 26 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے سی پیک کے فیز ون پر تقریبا کام مکمل کر لیا ہے۔ ان کے مطابق اس میں 60 کے قریب منصوبے تھے جن میں زیادہ تر روڈ انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبے سے متعلقہ تھے۔انھوں نے کہا کہ گذشتہ دس سال میں بدقسمتی سے چینی شہریوں پر حملے ہوئے جن میں چین کا جانی نقصان ہوا۔ اب چین نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہیں سرمایہ کاری کریں گے جہاں سکیورٹی صورتحال بہتر ہو گی کیونکہ چینی شہریوں کے تحفظ پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ان کے مطابق چین نے یہ طے کر لیا ہے کہ فیز ٹو کی طرف اس وقت تک نہیں جانا جب تک یہ دونوں چیزیں بہتر نہیں ہوں گی۔ وہ سکیورٹی اور چینی شہریوں کی سکیورٹی کی بات کر رہے ہیں۔ان کے مطابق چین فیز ٹو میں اس وقت نہیں جائے گا جب تک پاکستان واضح اقدامات نہیں اٹھاتا اور زمینی حالات بہتر نہیں ہوتے۔پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے فیز ٹو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ چین میں منصوبوں کو اپ گریڈ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔سی پیک کے اگلے مرحلے میں صنعتی پارکس قائم کیے جائیں گے، سی پیک کے اگلے مرحلے میں خصوصی اقتصادی زونز بھی قائم کیے جائیں گے، جبکہ تجارت اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے کئی مواقع کی نشاندہی کی گئی ہے۔چین میں پاکستان کی سابق سفیر نغمانہ ہاشمی نے میڈیا کو بتایا کہ چین کی طرف سے یہ کہنا معمول کی بات ہے کیونکہ چین یہ بات ایک دوست کی حیثیت سے کہہ رہا ہے۔ان کے خیال میں دونوں ممالک ایک ہی صفحے پر ہیں۔ نغمانہ ہاشمی کے مطابق چین جب پاکستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے بارے میں بات کرتا ہے تو وہ بین الاقوامی کمیونٹی کو بھی ایک پیغام دے رہا ہوتا ہے جو اس خطے میں اس کے ساتھ جیو اکنامک اور جیو سٹریٹجک دوڑ میں شامل ہے۔ ان کی رائے میں چین ان ممالک کو بھی پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔چینی امور پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر فضل الرحمان نے میڈیا کو بتایا کہ یہ وہ چینی تحفظات ہیں جو وہ عرصہ دراز سے پاکستان سے شیئر کرتے آئے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان بھی یہ یقین دہانی کراتا آیا ہے کہ وہ یہ تحفظات دور کریں گے۔ڈاکٹر فضل الرحمان کے مطابق چین کا طریقہ کار یہ ہے کہ جو وہ بتاتے ہیں پھر ساتھ ساتھ مسائل حل بھی کرنے ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح پاکستان نے معاشی مشکلات کا ذکر کیا تو چین اس بات کو سمجھ گیا مگر جو بھی کرنا ہے چین کو درست درست بتانا ہوتا ہے۔ڈاکٹر فضل الرحمان کے مطابق چین اور پاکستان کے مفادات ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں اور یہ تاثر درست نہیں ہے کہ چین اب پاکستان سے تعلقات کو اہمیت نہیں دیتا ہے۔ ان کی رائے میں چین صرف یہ کہتا ہے کہ نت نئے تجربات نہ کریں بلکہ نظام کو تسلسل سے چلنے دیں۔نغمانہ ہاشمی اس بات سے متفق ہیں۔ان کیمطابق اگر چین ان تعلقات کو اہمیت نہ دیتا تو آج پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی منتقل نہ کی جاتی۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات پر منفی رپورٹنگ اس وجہ سے ہوتی ہے کہ دونوں ممالک انگریزی میڈیا میں انڈیا، برطانیہ اور امریکہ سے بہت پیچھے ہیں۔ان کی رائے میں بیانیے کی بہتر ترویج کے لیے بغیر شور کے کام کرنے والا کلچر اب نہیں رہا، اب ساتھ ساتھ بیانیہ بھی بنانا ضروری ہو گیا ہے۔ڈاکٹر وسیم نے کہا کہ سی پیک سکیورٹی ڈویژن کو زیادہ فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ انٹیلیجنس شیئرنگ کی ضرورت ہے اور چینی شہریوں کو آن سائٹ تحفظ کی ضرورت ہے اور انھیں نقل و حرکت کے دوران بہت تحفظ دینا ہوگا۔ان کے مطابق پاکستان کو پڑوسی ممالک جیسے افغانستان، ایران اور انڈیا میں تھوڑا فعال ہونا ہو گا اور پاکستان سے باہر جو سرگرمیاں ہو رہی ہے ان کو انٹیلیجنس شیئرنگ کے ذریعے روکنا ہو گا۔ اس سے چینی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا۔ڈاکٹر وسیم کا کہنا ہے کہ سی پیک کا فیز ون تو بہتر انداز میں چلتا رہا۔ اس دوران سڑکوں کی تعمیر ہوئی، نئے موٹرویز بنے اور دیگر توانائی کے منصوبوں پر بھی کام ہوا۔ تاہم ان کے مطابق دہشتگردی کی کارروائیوں سے سرمایہ کاری کا عمل متاثر ہوا۔ڈاکٹر وسیم کے مطابق ہماری طرف سیاسی تعطل تھا، فیصلہ سازی میں کچھ ایشوز تھے، سہولت کاری کے کچھ مسائل تھے جس کی وجہ سے اب تقریبا یہ سی پیک کے منصوبے رک گئے ہیں۔ان کے مطابق اب چین کا یہ مطالبہ ہے کہ جب تک 100 فیصد چینی شہریوں کو سکیورٹی نہیں ملتی پھر یہ زیادہ تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ڈاکٹر نغمانہ کے مطابق سی پیک کے دوسرے فیز میں نجی سرمایہ کاری ہو گی تو اس کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کار کے لیے ماحول اچھا ہو۔ ان کے مطابق سی پیک کا تصور تو شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے ہی پیدا ہو گیا تھا کیونکہ مقصد صرف چین کو ایبٹ آباد سے تو ملانا نہیں تھا۔ان کی رائے میں گذشتہ دس برس میں سی پیک پر بہت پیش رفت ہوئی ہے اور نئے منصوبے لگے ہیں۔ مگر اب اگر اکنامک زون بننے ہیں تو وہ تاخیر پاکستان کی طرف سے ہے اور اس میں چین کا کوئی قصور نہیں ہے۔ہمیں اپنی سستی خود ختم کرنا ہو گی تو پھر سرمایہ کاری کے رستے کھلیں گے۔ادھر ڈاکٹر وسیم کے مطابق وزیراعظم کے چین کے حالیہ دورے میں آرمی چیف بھی ساتھ تھے اور یہ بہت واضح پیغام تھا کہ تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں اور چین کی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ان کے مطابق حکومت سمیت تمام اداروں اور جماعتوں کو اس کا احساس ہے۔ جب ہم ایک جامع حکمت عملی ترتیب دیں گے تو پھر بہتری آئے گی۔ڈاکٹر وسیم کے مطابق سی پیک کے منصوبوں پر کام اس حکومت کے دور میں مکمل ہونا ہے۔ انھیں توقع ہے کہ اس حکومت کے دورانیے میں 80 سے 90 فیصد مکمل ہو جائے گا۔ان کے مطابق سی پیک بی آر آئی کا ایک فلیگ شپ پروگرام ہے۔ اب تمام جماعتیں ایک میز پر بیٹھی ہیں جو کہ اچھی پیشرفت ہے۔ ملک کے اندر بھی ہمیں ایک گرینڈ ڈائیلاگ اور گرینڈ ریکنسلئیشین کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں