شعائر دین میں اذان ایک عظیم الشان شعائر ھے اور مذہب اسلام کا ایک خاص نشان ہے۔ اس کلمات کے ترکیب اور ترتیب نہایت عجیب ھے اس کے چند کلمات میں اسلام کے تین بنیادی اصول توحید ، رسالت اور آخرت موجود ہیں اللہ اکبر میں خداوند ذوالجلال کی عظمت و کبریائی کا بیان ھے اور اشہدان لا الہ الا اللہ میں توحید کا اثبات اور شرک کی نفی ھے اور اشہد ان محمد رسول اللہ میں اثبات رسالت ھے اعلان توحید اور رسالت کے بعد سب سے افضل اور بہتر عبادت نماز کی طرف حی علی الصلوة کہہ کر بلایا جاتا ہے پھر اخیر میں حی الفلاح کہہ کر فلاح دائمی کی طرف دعوت دی جاتی ہے جس سے آخرت کی طرف اشارہ ہوتا ہے آخر میں اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ کہہ کر اس طرف اشارہ جاتا ھے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔سب سے پہلے اذان حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے کہی اور ان کو خدا تعالی نے یہ شرف بخشا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے محبوب اور مقرب موذن بن گئے۔ فتح مکہ کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ کعبہ کی چھت پر اذان دو اور کعبہ کے اوپر روزانہ 120 رحمتیں نازل ہوتی ہیں گویا حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کعبہ پر اذان دے رہے ہیں اور ان پر خدا کریم کی طرف سے رحمتوں کا نزول ہو رہا ہے کیا شان موذن رسول کی حضرت ابو امامہ الباھلی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ۔ ترجمہ: ۔ جہاں تک موذن کی اذان کی آواز جاتی ہے وہاں تک اس کے لیے مغفرت کر دی جاتی ہے اور اس کی آواز اذان پر جتنے لوگ نماز پڑھتے ہیں ان سب کے ثواب کے برابر اس کو ثواب ملتا ہے اور ان نمازیوں کے ثواب میں بھی کمی نہیں آتی ۔ایک اور حدیث شریف میں ہے ترجمہ ۔ جب موذن اذان شروع کرتا ہے تو اللہ رب العزت اپنی رحمت کا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیتا ہے اور اذان سے فراغت تک ایسے ہی رہتا ہے۔ ایک اور حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔ جب کوئی آدمی جنگل میں اذان دے کر نماز پڑھے تو اس کے پیچھے دونوں طرف حد نگاہ فرشتے نماز پڑھتے ہیں جو اس کے رکوع کے ساتھ رکوع کرتے ہیں اس کے سجدہ کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں اور اس کی دعا پر آمین کہتے ہیں حدیث مبارکہ ہے جو اللہ تعالی سے حصول ثواب کی خاطر ایک سال تک اذان دے قیامت کے دن اسے کہا جائے گا کہ جس کی چاھو شفاعت کرو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کے دن موذن جنتی اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں گے اور حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ ان سب کے اگے ہوں گے اور یہ سب موذن با آواز بلند سے اذان دیں گے پوچھا جائے گا یہ کون لوگ ہیں کہا جائے گا یہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے موذن ہیں۔ اس دن لوگوں پر خوف و حزن طاری ہوگا اور موذنوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بعد الانبیا اور شہدا سب سے پہلے موذنوں کے بارے میں اللہ رب العزت فیصلہ فرمائے گا سب سے بیشتر کعبہ کے موذنوں پھر مسجد اقصی کے موذنوں اور پھر دوسرے موذنوں کا حساب کتاب ھوگا اور ان کو داخل جنت کیا جائے گا ۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے قیامت کے دن سب سے پہلے موذن کو لباس پہنایا جائے گا حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ جو موذن ثواب کی خاطر اذان دیتے ہیں ان کی قبروں میں کیڑے نہیں پڑیں گے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد پاک ہے “جس نے سات سال تک ثواب کی خاطر اذان کہی، اللہ رب العزت نے اسے جہنم سے آزاد کر دیا “ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ھوا اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا عمل بتا دیں جس سے میں جنتی ہو جائوں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا” موذن بن کہ لوگ تمہاری آواز پر نماز کے لیے جمع ہوں “عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اگر مجھے اس کی طاقت نہ ہو فرمایا “پھر امام مان جا کہ لوگ تیرے ساتھ جمع ہو کر نماز ادا کریں” عرض کی اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو فرمایا” پھر پہلی صف کو لازم کر لو”۔
10