ملک میں الیکشن سرگرمیاں بتدریج آگے بڑھ رہی ہیں’ سیاسی جماعتوں کی قیادت کے فعال ہوتے ہی ورکرز سپورٹرز اور ووٹرز میں بھی جوش وخروش پیدا ہو گیا ہے کچھ عناصر کی جانب سے ماحول کو خراب کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہے سوشل میڈیا پر مختلف نوعیت کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ الیکشن آٹھ فروری کو نہیں ہوں گے مگر الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ آئین کی حدود میں رہ کر الیکشن کے انعقاد میں کھڑی کی جانے والی تمام رکاوٹوں کو ختم کر کے آٹھ فروری کو انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے پر عزم ہے، الیکشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں سرکاری ملازمین کی تربیت کا عمل بھی جاری ہے امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ ہو چکے ہیں’ سیاسی قیادت متحرک ہے، ملک کی بڑی جماعتوں کے قائدین انتخابی جلسوں کے شیڈول کے تحت عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے کیلئے تیار ہیں گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان میں سیاسی اجتماعات سے خطاب کیا مسلم لیگ (ن) کی راہنما مریم نواز کا آج 15جنوری کو اوکاڑہ میں سیاسی اجتماع سے خطاب ہو گا آئی پی پی کے سربراہ بھی میدان میں آ گئے ہیں مسلم لیگ (ن) کے قائد بھی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنے جا رہے ہیں جے یو آئی ودیگر جماعتوں کی قیادت بھی انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی فہرست جاری کر دی ہے الیکشن میں کون کس کا مقابلہ کرے گا یہ بھی سامنے آ چکا ہے امیدواروں نے اپنی اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے پی ٹی آئی کے بانی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ان کے بعد بیرسٹر گوہر کو چیئرمین بنایا گیا تاہم عدالتی حکم کے بعد اب وہ چیئرمین نہیں رہے اس طرح پی ٹی آئی سے وابستہ وہ تمام امیدواران جو بلے کے انتخابی نشان کے تحت الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے اب آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں اس اقدام سے ان کے ووٹرز کو مشکلات پیش آئیں گی اور یقینا پی ٹی آئی کی سیاسی قوت میں کمی واقع ہو گی اس جماعت سے وابستہ سیاسی افراد کی کامیابی نظر نہیں آ رہی بلکہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں سے بھی چند ایک کے سوا کوئی رکن اسمبلی نہیں بن سکے گا پی ٹی آئی نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی ماری پہلے سائفر کیس’ پھر توشہ خانہ’ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی’ الیکشن کمشنر کے ساتھ جنگ’ 9مئی کا واقعہ یہ سب پی ٹی آئی کے لیے زہرقاتل ہے آج پی ٹی آئی بھولی بسری جماعت بنتی جا رہی ہے میڈیا میں رہنے والی جماعت کو میڈیا بھی منہ نہیں لگا رہا اور عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اس جماعت نے خود کو نمایاں رکھنے کیلئے جتنی بھی تدبیریں کیں وہ سب الٹ ہو گئی ہیں اس وقت ملک کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا مقابلہ نظر آ رہا ہے استحکام پاکستان پارٹی کو قائم ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں لہٰذا یہ پارٹی فوری طور پر وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے گی جس کی توقع کی جا رہی ہے بے شک اس جماعت میں بڑی انویسٹمنٹ کے امکانات ہیں تاہم اس کے باوجود چند اہم راہنمائوں کے علاوہ اس جماعت کے باقی امیدواروں کی جیت کے امکانات واضح نظر نہیں آ رہے جہانگیر ترین علیم خان ودیگر راہنما اپنی جماعت کی کامیابی کیلئے کوشاں ہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی اس جماعت سے نرمی اختیار کر رہی ہے اور پنجاب کے چند حلقے (ن) لیگ نے خالی رکھے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہاں آئی پی پی کے امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے آٹھ فروری زیادہ دور نہیں الیکشن کے مراحل مکمل ہوتے جا رہے ہیں جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں سیاسی ڈیروں اور انتخابی مہم میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے اب افواہ سازوں کو بے پرکی اڑانے سے باز آ جانا چاہیے کیونکہ الیکشن کا آٹھ فروری کو انعقاد پتھر پر لکیر ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت شفاف انتخابات یقینی بنانے کیلئے ووٹرز کو امیدواروں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کریں الیکشن کمیشن انتخابی نتائج میں تاخیر نہ کرے تاکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل اور انتخابی نتائج پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔
