موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہر ذی روح نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے مگر کچھ لوگوں کی موت ایسی کربناک ہوتی ہے جو انسان کو تڑپا کر رکھ دیتی ہے۔ فیصل آباد کے محلہ شریف پورہ میں جو روح فرسا واقعہ پیش آیا اس نے درد دل رکھنے والے ہر شخص کو افسردہ اور غمناک کر دیا اور علاقہ میں قیامت صغریٰ کا منظر دکھائی دیا، محمد احمد کے اہل خانہ اے سی چلا کر سو رہے تھے، اس دوران ایک بچہ لیپ ٹاپ کو چارجر لگا کر کھیل رہا تھا کہ اچانک سپارکنگ کی وجہ سے بیڈ کی چادر کو آگ لگ گئی جس نے چند لمحوں میں ہی پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، گھر کے 9افراد آگ کی لپیٹ میں آ کر بری طرح جھلس گئے جنہیں انتہائی تشویشناک حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں 32سالہ نرگس بی بی زوجہ محمد احمد’ تین سالہ ابراہیم’ 6سالہ دعا فاطمہ اور 9سالہ طلحہ دوران علاج دم توڑ گئے، ماں اور تینوں بچوں کے جنازے اُٹھنے پر کہرام مچ گیا اور شدت غم سے ہر آنکھ اشکبار نظر آئی، ماں اور تین بچوں کے بعد مزید تین افراد زندگی کی بازی ہار گئے اس طرح المناک سانحہ میں مرنے والوں کی تعداد سات ہو گئی ہے، جبکہ آتشزدگی سے جھلس جانے والے آخری دو افراد بھی اگلے روز چل بسے اس طرح آگ کی لپیٹ میں آنیوالے تمام افراد زندگی کی بازی ہار گئے، یہ سانحہ ہر شخص کو اشکبار کر گیا اور متاثرہ گھر سے مسلسل تین روز جنازے اُٹھتے رہے، محلہ شریف پورہ میں واقع دو منزلہ گھر میں رہائش پذیر محمد اسلم (مرحوم) کے چاروں بیٹے اپنے آبائی گھر میں رہتے ہیں، عیدالاضحی سے ایک روز قبل محمد احمد نے اپنے نئے تعمیر شدہ کمرہ میں اے سی لگوایا، عیدالاضحی کے دوسرے روز اس کمرے میں محمد احمد کے بیوی بچے’ اس کی والدہ اور دوسرے بھائیوں کے بچے اے سی چلا کر بیٹھے تھے، ان میں ایک بچہ لیپ ٹاپ چلانے میں مصروف تھا کہ اچانک لیپ ٹاپ میں سپارکنگ ہوئی اور کمرے کو آگ لگ گئی جو بڑی تیزی کے ساتھ پھیل گئی، اس دوران جھلس جانے والے تمام افراد موت کی وادی میں پہنچ چکے ہیں، ماں اور تین بچوں کی نعشیں گھر پہنچنے پر کہرام مچ گیا اور متاثرہ گھر کے سربراہ محمد احمد کی بھاوج راشدہ بی بی اور چھوٹا بھائی محمد مکی رضا بھی دم توڑ گئے اور باقی دو زخمی بھی گزشتہ روز چل بسے، بلاشبہ! موت برحق ہے لیکن جوانی کی اور حادثاتی موت بڑی ہی تکلیف اور اذیت کا باعث ثابت ہوتی ہے، موت کو زندگی کی سفاک حقیقت کا نام بھی دیا گیا ہے، موت کو کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی، کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، اسی لئے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ کون کس کی اکلوتی اولاد ہے یا کون کسی کا واحد کفیل یا سہارا ہے، کون کسی کا باپ یا کون کسی کا لخت جگر ہے، موت بس بے تابی سے زندگی کے تعاقب میں دیوانہ وار دوڑتی رہتی ہے اور بالآخر اسے ایک دن جا لیتی ہے، اولاد کو ویسے بھی والدین کا سب سے بڑا امتحان کہا جاتا ہے لیکن ان کی اچانک بالخصوص حادثاتی موت والدین کو پاش پاش کر دیتی ہے اور پھر وہ ایسے بکھرتے ہیں کہ کسی صورت اٹھائے نہیں اٹھتے، جوان العمری کی اموات والدین کیلئے دنیاکی بہت بڑی تکلیف اور آزمائش کہلاتی ہے، اسی طرح اولاد کیلئے ماں باپ کی موت بھی کسی سانحہ سے کم نہیں ہوتی، یہ صدمہ، یہ غم، یہ رنج، یہ ملال’ یہ دُکھ یہ افسوس ان لوگوں کیلئے ناقابل فراموش ہوتا ہے جن کے پیارے وقت سے پہلے قبروں میں جا پہنچتے ہیں، یہ عالمگیر سچائی ہے کہ جو بالائے زمین آیا اسے ایک روز زیرزمین جانا ہے کہ یہ ہمارے رب کا امر ہے، تاہم اس بات میں بھی دورائے نہیں ہو سکتی کہ کسی کی موت فطری یا طبعی ہو تو انسان صبر کر لیتا ہے یا اسے صبر آ جاتا ہے لیکن حادثاتی موت کا غم دیرپا ہوتا ہے اور یہ انسان کو گھن کی طرح چاٹتا رہتا ہے، ہماری زندگی میں کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب یوں محسوس ہونے لگے کہ سب کچھ ٹھہر سا گیا ہے، سب کچھ ختم ہو گیا ہے، یہ سچ ہے کہ ہر انسان مختلف واقعات وحادثات پر ایک جیسے ردعمل کا اظہار نہیں کرتا، کچھ لوگ اپنی داخلی کیفیت پر قابو نہیں رکھ پاتے اور ان کا دکھ جلد ظاہر ہو جاتا ہے جبکہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے دکھ کو اپنے اندر پیوست کر لیتے ہیں اور دوسروں کو حوصلہ دیتے نظر آتے ہیں، ہم اپنے اردگرد لوگوں کو اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھتے ہیں اور سوگواران سے چند تسلی بخش اور رسمی جملے کہہ کر اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں مگر جب کوئی اپنا پیارا ہم سے بچھڑتا ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اپنوں کی موت کا دکھ کتنا گہرا دکھ ہوتا ہے، ہر خاص وعام کو چاہیے کہ وہ ایسے مواقع پر سوگواران کے غم میں برابر کا شریک ہو، بالخصوص متعلقہ علاقہ کے منتخب نمائندوں اور سرکردہ شخصیات کو قیامت صغریٰ کی ان گھڑیوں میں غم زدہ خاندان کا سہارا بننا چاہیے مگر یہ حقیقت بڑی کربناک ہے کہ سانحہ شریف پورہ پر حلقہ کا کوئی ایم این اے’ ایم پی اے یا حکومتی نمائندہ وہاں اظہار تعزیت کرنے کیلئے نہیں پہنچا، اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے منتخب MNA رانا عاطف اور MPA چوہدری لطیف نذر گجر نے متاثرہ گھر تک جانا گوارہ نہیں کیا جبکہ اس سانحہ پر پنجاب حکومت کا رویہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے، البتہ جماعت اسلامی کے عہدیداران متاثرین کا بھرپور خیال رکھ رہے ہیں، اس حلقہ سے (ن) لیگ کے ٹکٹ ہولڈر میاں عرفان اور PP-115 سے سابق ایم پی اے میاں طاہر جمیل نے متاثرین کے گھر جا کر اظہار افسوس کیا، دیگر رہنمائوں بالخصوص پنجاب حکومت کو بھی چاہیے کہ غم کی اس گھڑی میں سوگواران کی دلجوئی کریں، سانحہ شریف پورہ ہمیں اس بات کا درس دے رہا ہے کہ ہم اپنے گھر یا کسی بھی جگہ پر فریج رکھیں یا اے سی لگوائیں تو وائرنگ سمیت ہر کام مکمل طور پر تسلی بخش کروائیں، کسی بھی جگہ گیس لیکج یا شارٹ سرکٹ کا پتہ چلے تو کسی ماہر کو بلا کر اس کا فوری سدباب کرنا چاہیے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سانحہ شریف پورہ میں مرنے والوں کو جنت الفردوس میں جگہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
