دوسروں کو کھانا کھلانے کے بڑے فائدے اور ثواب ہے، بھوکے کو کھانا کھلانا دین اسلام کے اہم ترین اعمال میں سے ایک ہے، محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دوسروں کو کھانا کھلانے کی ہدایت فرمائی ہے، دوسروں کو کھانا کھلانا بھی اﷲ تعالیٰ کی عطاء سے ہی ممکن ہے، بے شک اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اگر آپ اچھا رزق کما رہے ہیں تو اس میں آپ کی ذہانت یا صلاحیتوں کا کوئی کمال نہیں، بڑے بڑے عقل کے پہاڑ خاک چھان رہے ہیں۔ اگر آپ کسی بڑی بیماری سے بچے ہوئے ہیں تو اس میں آپ کی خوراک یا حفظانِ صحت کی اختیار کردہ احتیاطی تدابیر کا کوئی دخل نہیں۔ ایسے بہت سے انسانوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں جو سوائے منرل واٹر کے کوئی پانی نہیں پیتے تھے مگر پھر اچانک انہیں برین ٹیومر، بلڈ کینسر یا ہیپاٹائٹس سی تشخیص ہوئی اور وہ دنیا سے کوچ کر گئے۔ اگر آپ کے بیوی بچے سرکش نہیں بلکہ آپ کے تابع دار و فرمانبردار ہیں، خاندان میں بیٹے بیٹیاں مہذب، باحیا و با کردار سمجھے جاتے ہیں، تو اس کا سب کریڈٹ بھی آپ کی تربیت کو نہیں جاتا کیوں کہ بیٹا تو نبی کا بھی بگڑ سکتا ہے اور بیوی تو پیغمبر کی بھی نافرمان ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کی کبھی جیب نہیں کٹی، کبھی موبائل نہیں چھنا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت چوکنے اور ہوشیار ہیں، بلکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ نے بدقماشوں، جیب کتروں اور رہزنوں کو آپ کے قریب نہیں پھٹکنے دیا تاکہ آپ ان کی ضرر رسانیوں سے بچے رہیں۔ یہ غالبا ہر انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ خود دوسروں سے اچھا کما رہا ہو تو یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ ضرور دوسروں سے زیادہ محنتی، چالاک اور اپنے کام میں زیادہ ماہر ہے۔ پھر وہ ان لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے جن کو نپا تلا رزق مل رہا ہے، ان پر تنقید کرتا ہے، ان کا مذاق اڑاتا ہے۔ مگر جب یکلخت وقت کا پہیہ الٹا گھومتا ہے تو اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس تھی جو وہ سمجھ بیٹھا تھا۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اسے رزق کے معاملہ میں آزمایا نہ جائے تو تین کام کرے۔ اول: جو کچھ مل رہا ہے اسے محض مالک کی عطا سمجھے نہ کہ اپنی قابلیت کا نتیجہ اور ساتھ ہی مالک کا شکر بھی بجا لاتا رہے۔ دوئم: جن کو کم یا نپاتلا رزق مل رہا ہے انہیں حقیر نہ جانے نہ ان لوگوں سے حسدکرے جن کو بے حساب رزق میسر ہے۔ یہ سب رزاق کی اپنی تقسیم ہے۔ اس کے بھید وہی جانے۔ سوئم: جتنا ہو سکے اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرے۔ زیادہ ہے تو زیادہ، کم ہے تو کم شامل کرے۔ سب سے زیادہ حق، والدین اور رحم کے رشتوں کا ہے۔ نانا نانی، دادا دادی، بہنیں اور بھائی ہیں۔ اس کے بعد خون کے دوسرے رشتے ہیں جیسے خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں، چچی وغیرہ۔ پھر دوسرے قریبی رشتہ دار یا مسکین و لاچار لوگ۔ یقین رکھیں کہ جب بہت سے دعا کے ہاتھ آپ کے حق میں اٹھیں گے تو برکت موسلادھار بارش کی مانند برسے گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم کسی بھی کامیابی کو اپنی ذہانت اور صلاحیت کا کمال نہ سمجھیں، بلکہ خود کو بے بس سمجھنا چاہیے، عاجزی اور انکساری اختیار کرنا بھی مقدر والوں کو نصیب ہوتا ہے، انسان اپنی خوشی، غمی، اپنے ارادوں، اپنے مشاغل، اپنی مصروفیت اور اپنی تمام حرکات وسکنات میں عاجز وناتواں ہے۔ انسان کا ہونا اس کے نہ ہونے تک ہے، اس کا حاصل لاحاصل تک ہے اس کی آرزوئیں، شکست آرزو تک، خون آرزو تک، اس کی توانائی و صحت بیماری تک اور اس کی ساری تگ و دو اس کے اپنے مرقد تک’ اس کی بلند پروازی اس کی واپسی تک اس کا ہر تخیل عروج و خیال اس کے زوال تک ہی ہے۔اس کی انا ایک بچے کی طرح پھولتی ہے پھر غبارہ پھٹ جاتا ہے اور وہ عاجز بے بس ہو کر اس کھیل سے محروم ہو جاتا ہے۔ انسان علم حاصل کرتا ہے خود کو دوام بخشنے کے لیے’ اس کے پاس گنتی کے ایام ہیں اور کتابیں ان گنت۔ اس کا معلوم محدود رہتا ہے اور لامعلوم لامحدود۔ اس کا افتخار انجام کار بے بسی میں خاموش ہو جاتا ہے۔انسان صحت کی حفاظت کرتا ہے۔ خوراک کا اہتمام کرتا ہے بڑے جشن کرتا ہے وہ طویل عمر چاہتا ہے اور طویل عمر، نقص عمر سے دوچار ہوتی ہے، زندگی قائم بھی رہے تو بینائی قائم نہیں رہتی سماعت ختم ہو جاتی ہے اور پھر یادداشت کسی صدمے کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے۔ زندگی کے لطف سے محروم۔ وہ نہ بھی مرے تو اس کے عزیز اس کے اقربا اس کے محبوب رخصت ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی میں خود کو اپنی نظروں میں بیگانہ سمجھنے لگتا ہے۔ تو پھر ہمیں ذہین اور چالاک کی بجائے خود کو بے بس سمجھنا چاہیے، عاجزی وانکساری کے اوصاف جس میں پیدا ہو جائیں وہ ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھتا ہے اور یہ بات اس کے لیے دنیا وآخرت میں فلاح کا ذریعہ بنتی ہے، اﷲ تعالیٰ اچھا رزق کمانے کی توفیق بخشے تو ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے، بے شک! صبر وشکر کرنا بہت بڑی خوش بختی ہے، اسلام نے صبر وشکر کو اپنانے پر بہت زور دیا ہے، قرآن و حدیث میں ان دونوں کے تعلق سے جابجا تاکیدی و ترغیبی ہدایات ملتی ہیں۔صبر کا تعلق بلاواسطہ ہر شعبہ زندگی اور ہر مسئلہ ایمان سے ہے،اور دین میں اس کو وہی مقام حاصل ہے جو جسم انسانی میں سر کو حاصل ہوتا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، ان کا مددگار، حامی و ناصر ہے، ان کا محافظ، و نگہبان ہے، اہل صبر خدا کی رحمتوں، عنایتوں، برکتوں اور نوازشوں سے بہرہ مند ہیں، وہ ہدایت یافتہ اور سعادت مند ہیں، ان حقائق کا اظہار قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے اور صبر کو سب سے اعلی مقام قرار دیا ہے۔زہد اور دنیا سے بے نیازی بلا شبہ مالداری کے مقابلے میں افضل ہے، زاہد کامقام صابر کی طرح ہے، اور نیک مالدار کا مقام شاکر کی طرح ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں اور شکر گزار بنیں ان کو کبھی کمی نہیں آتی اور جو لوگ اپنے رزق میں دوسروں کو شامل نہ کریں انہیں بالآخر خسارہ ہوتا ہے، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں دوسروں کی بھرپور مدد اور اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
13