92

بجلی’ گیس کا بحران’ صارفین پریشان (اداریہ)

سردی کی شدید لہر کے بعد پنجاب بھر میں بجلی’ گیس کا بحران شدت اختیار کرنے لگا کئی کئی گھنٹے تک بجلی کی بندش سے گھریلو صارفین سمیت کاروباری طبقہ کیلئے بھی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں بجلی کے ساتھ ساتھ گیس بحران نے بھی صارفین کیلئے دشواریاں پیدا کر دی ہیں گیس کمپنیاں دن میں چند گھنٹوں کیلئے گیس کی فراہمی بھی ممکن نہیں بنا سکیں صبح’ دوپہر’ رات کو دو گھنٹے گیس فراہم کی جاتی تھی مگر اب تو تمام دن گیس بند رہنے لگی ہے جس سے گھریلو خواتین کو کھانا پکانا اور دیگر ضروری امور کا نمٹانا مشکل ہو گیا ہے جبکہ بجلی کی غیر اعلانیہ بندش سے عوامی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے دفاتر جانے والے ملازمین مشکلات کا شکار’ پریشر انتہائی کم رہنے کی وجہ سے صارفین گیس کا فائدہ اٹھانے میں ناکام’ شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 5 سے 6 گھنٹے دیہات میں یہ دورانیہ دوگنا ہے جس سے شہری اور دیہی علاقوں کے رہائشی افراد کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے، گیس کمپنیوں نے گیس بل اتنے زیادہ بڑھا دیئے ہیں کہ صارفین اس کو ادا کرنے سے قاصر ہیں مگر پھر بھی گیس نہیں مل رہی دوسری جانب بجلی کے بلز اتنے بڑھ چکے ہیں کہ عام آدمی میں بل ادا کرنے کی سکت ہی نہیں رہی بجلی کے بلز میں سرچارجز کے علاوہ 8قسم کے ٹیکسز وصولی کی جا رہی ہے یہ ٹیکسز گھریلو’ کمرشل صنعتی’ زرعی صارفین پر لاگو ہیں، پاور ڈویژن کی دستاویز کے مطابق تمام صارفین سے 18فیصد جنرل سیلز ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے کمرشل وصنعتی صارفین 19 سے 20ہزار روپے کے بل پر 10 فیصد انکم ٹیکس دیتے ہیں نان فائلرز گھریلو صارفین 25ہزار سے زائد بل پر 7.5 فیصد ایڈوانس ٹیکس دیتے ہیں جبکہ کمرشل وصنعتی غیر فعال صارفین پر 5 سے 7 فیصد اضافی سیلز ٹیکس بھی لگایا جاتا ہے کمرشل صارفین 20ہزار کے بل پر 7.5 ریٹیلرز سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں 8قسم کے وصول کئے جانیوالے ٹیکسز فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس اور دیگر سرچارجز کے علاوہ ہیں جو بجلی صارفین سے وصول کئے جا رہے ہیں اس کے علاوہ جب بھی کسی پاور پلانٹ یا ڈیم سے پیدا کرنے والے پلانٹس میں فالٹ پڑ جائے تو اس کا بوجھ بھی صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے المختصر بجلی وگیس صارفین کی زندگی اجیرن بنائی جا رہی ہے اشرافیہ کیلئے آسانیاں عام آدمی کیلئے مشکلات پیدا کرنا حکمرانوں نے معمول بنا رکھا ہے سرکاری اداروں میں سردیوں میں گیس کے بے دردی سے استعمال’ گرمیوں میں ائیرکنڈیشنڈ کا چوبیس گھنٹے استعمال افسران اور ماتحین کا وطیرہ بن چکا ہے غریبوں کے خون پسینے کی کمائی بیوروکریسی اور اشرافیہ لٹانے میں مصروف ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، اداروں کی اصلاح کے دعوے کرنے والے صرف بیانات تک محدود ہیں عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عوام عاجز آ چکے ہیں معیشت کمزور ترین ہو چکی ہے ٹیکسز نے لوگوں کا بُرا حال کر رکھا ہے انڈسٹری زوال کا شکار ہے بے روزگاری بڑھ رہی ہے بدامنی کا دور دورہ ہے ملک مسائل اور مسائل میں گرتا جا رہا ہے بیوروکریسی یہ بات جانتی ہے کہ سیاسی قیادت کا دور حکومت زیادہ سے زیادہ 5سال کا ہوتا ہے اپوزیشن اور حکومت کی لڑائی سے بھی اعلیٰ افسران خوب فائدہ اٹھاتے ہیں افسران کی حکمت عملی حکومتوں کی سمجھ میں نہیں آتی سیاسی قیادتیں اپنی اپنی بنسی بجا کر چلی جاتی ہیں مگر بیوروکریسی وہیں کی وہیں رہتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ نوکرشاہی ہے تو غلط نہ ہو گا اعلیٰ افسران کے فیصلے ہی چلتے ہیں عام آدمی کی تنخواہ 25 سے 30ہزار مقرر کرنے والے بیوروکریٹ کی اپنی تنخواہیں کئی کئی لاکھ گیس’ بجلی’ پٹرول’ ٹیلی فون سمیت دیگر مراعات الگ ہیں جب عام آدمی کی بات آتی ہے تو ان کو چپ لگ جاتی ہے غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کردہ ٹیکسوں کو مراعات یافتہ طبقہ اڑاتا رہتا ہے اور غریب روٹی کو ترستے رہتے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران طبقہ اشرافیہ کی مراعات ختم کر کے غریبوں کو ریلیف دے تاکہ ملک سے بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں