48

بجلی’ گیس کی لوڈشیڈنگ’ عوامی مشکلات میں اضافہ (اداریہ)

شدید سردی کی لہر کے ساتھ ہی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ’ گھریلو وکمرشل صارفین کے مسائل بڑھ گئے بجلی کی بندش سے مارکیٹوں’ پلازوں میں گاہکوں کا رش کم کاروباری افراد کی مشکلات میں اضافہ گھروں میں خواتین کو ضروری امور نمٹانے دشوار مساجد میں وضو کے لیے پانی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا’ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھنے سے ایک بار ماضی کی جانب دھیان چلا جاتا ہے جب پورا پورا دن بجلی نہیں آتی تھی گرمی کے ستائے بچے بوڑھے اور خواتین بمشکل دن گزارتے تھے رات کو گرمی کی وجہ سے سونا محال ہوتا تھا پھر چین کے تعاون سے بجلی گھروں کی تعمیر شروع کی گئی اور مقررہ وقت پر بجلی گھروں کی تکمیل کے بعد قومی گرڈ میں بجلی شامل ہوئی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے شہریوں کو نجات ملی پاور ڈویژن سے وابستہ افسران اور بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیاں مطمئن ہو گئیں مگر واپڈا حکام نے آنے والے وقت کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جس کا خمیازہ ایک بار پھر عوام بھگت رہے ہیں بجلی تو بجلی اب تو گیس کی لوڈشیڈنگ نے بھی ہمارے ملک میں پکے ڈیرے جما لئے ہیں گیس کے ذخائر میں کمی کے پیش نظر سوئی ناردرن گیس کمپنی اور سوئی سدرن گیس کمپنی نے صبح دوپہر شام تین وقت گیس صرف دو گھنٹے تک فراہمی کا شیڈول بنا لیا ہے اور تین اوقات میں گھریلو اور چھوٹے کمرشل اداروں مثلاً بیکریز’ تندور وغیرہ کو گیس کی فراہمی کی جا رہی ہے مگر سردی بڑھتے ہی تمام دن گیس غائب رہنے لگی ہے جبکہ گیس کمپنیوں نے گیس کے بلوں میں ہوشربا اضافہ کر کے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں عوام کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں مگر حکمران اور معزز عدالتیں نوٹس نہیں لے رہیں گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے متعدد بار یہ خوشخبری دی جا چکی ہے کہ سندھ کے بعض علاقوں میں گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور یہ ذخائر 100سال تک کیلئے کافی ہوں گے مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر ملک میں اتنے بڑے ذخائر گیس کے موجود ہیں تو ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ بجلی اور گیس کمپنیاں خسارے کا شکار ہیں جبکہ ملک کے اشرافیہ ملک کے وسائل کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہیں مفت بجلی’ مفت گیس’ مفت پٹرول لگژری سرکاری گاڑیاں’ سرکاری ڈرائیور درجنوں ملازمین اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں مگر آج تک اشرافیہ کو فراہم کی جانے والی مراعات کو واپس نہیں لیا جا سکا حکومت عوام کی جانب سے تنقید کرنے پر اعلان کرتی ہے کہ سرکاری ملازمین اور اشرافیہ کو دی گئی تمام مراعات ختم کر دی جائیں گی مگر یہ اعلان صرف اعلان ہی رہتے ہیں ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا بااثر افراد اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی حکومت ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتی اور اشرافیہ عوام کے خون پسینے کی کمائی لٹاتے رہتے ہیں قدرت نے تو ہمارے ارض مقدس کو وسائل سے مالامال کیا ہے مگر ان وسائل پر خواہ مخواہ دسترس رکھنے والے ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات نے اس ملک کو بربادی تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بجلی کے محکموں میں پائی جانے والی بدعنوانی پر قابو نہیں پایا جا سکا سستی بجلی پیدا کرنے کیلئے بڑے ڈیمز بنانے میں کوئی حکمران مخلص نہیں پاور پلانٹس چلانے والی کمپنیاں مہنگے داموں بجلی فروخت کرنے خوب مال کما رہی ہیں اگر کالاباغ اور بھاشا ڈیم تعمیر ہو جائیں تو نہ صرف سستی بجلی حاصل ہو بلکہ ملک میں پانی کی قلت نہ رہے نہ ہمارے دریا سوکھیں نہ نہریں خشک ہوں یہی حال گیس کے محکموں کا ہے جہاں بے ضابطگی اور بدعنوانی کا راج ہے گیس چوری کرنے میں محکمہ کے افسران واہلکار ملوث ہیں اور اس خسارے کا سارا ملبہ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے ہر ماہ بجلی کے بلوں میں اضافہ کرنا حکمرانوں نے وطیرہ بنا لیا ہے گیس کے بلوں میں 200 فی صد اضافہ کر کے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا گیا ہے ایل پی جی’ ایل پی جی کے نرخوں میں اضافہ سے گھریلو صارفین اور کمرشل صارفین سر پکڑ کر رہ گئے ایل پی جی گیس استعمال کرنے والی ٹرانسپورٹ کرائے بڑھانے پر مجبور ہیں جس کا بوجھ عام آدمی پر پڑ رہا ہے حکومت اگر بروقت گیس خریدے تو اس افتاد سے بچا جا سکتا تھا حکمرانوں کو نہ جانے کب ہوش آئے گا کہ وہ ملک کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کیلئے قبل ازوقت انتظامات کریں ناقص حکومتی حکمت عملی عوام کے مسائل کا سبب ہے چلیں مان لیتے ہیں کہ اس وقت نگران حکومت انتظامات چلا رہی ہے مگر ماضی کی حکومتیں بھی ملک کے انتظام وانصرام میں اسی طرح کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ نیا نہیں ہے بلکہ دو دہائیوں سے چلا آ رہا ہے اگر اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوششیں کی جاتیں تو ضرور کامیابی حاصل ہوتی مگر ہماری حکومتیں تو ڈنگ ٹپائو کے مقولے پر عمل پیرا ہیں لہٰذا یہ مسائل تو اسی طرح ہی رہیں گے اگر ہمارے حکمران چاہتے ہیں کہ ملک سے بجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو تو اس کیلئے باتوں سے کام نہیں چلے گا عمل کر کے دکھانا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں