کاش انسان اپنے جیسے گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان کے لئے متفکر ہو جاتا۔ وہ اسپ انا کی سواری ترک کرکے ان کے درمیان آکر چوکڑی مار کر بیٹھ جاتا تو اس کو دوسرے کے دکھ درد کی شدت کا اندازہ ہوتا اور پھر اس صورتحال کو وہ اپنے اوپر لاگو کر کے دیکھتا۔ اس کو یہ بھی معلوم ہوتا کہ اس کو ہر حال میں دو جہاں دیکھنے ہیں اور پہلے جہان میں پھول اور خار اکٹھے ہوتے ہیں جبکہ اگلے جہان میں پھول اور کنڈے علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ آگ اور پانی اکٹھے نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں اس کو دماغ کا بھی استعمال کرنا ہے جب کہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر متشدد، مغرور اور متکبر ہو گیا ہے جبکہ ایسا کرنے سے اس کو زیرو مارکنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کو لینے کے دینے پڑ جائینگے۔ الٹے پائوں چلنا پڑے گا۔ حساب چکانا پڑے گا اور اپنی اوقات میں آنا پڑے گا۔ وقت بھی کیا خوبصورت چیز ہے وہ ٹک ٹک کرتا ہوا انسان کے ذہن پر ہر لمحے اور ہر گھڑی دستک دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے میاں تم آگے جارہے ہو اور اگر تم پیچھے مڑ کر بھی دیکھو گے تو آپ کو کوئی پیچھے نہیں دیکھنے دے گا لہذا دیکھ بھال کے چلو اور دیکھ بھال کے چلنے سے مراد ہے کہ اپنے جیسوں کی دیکھ بھال کرو۔(بندہ بندے دا دارو اے) اپنے جیسوں کا خیال رکھو تمھارا بھی خود خدا خیال رکھے گا۔ جو اس حقیقت سے آگاہ ہو گئے وہ مرد خود آگاہ کہلائے پھر ایسے لوگوں نے دسترخوان بچھا لئے اور صدائے عام کردی۔ ہے کوئی طالب (طالب بیا، طالب بیا، طالب بیا) طلب پر رسد ہوتی ہے۔ آمد اور رسد کی بھی ایک خوبصورت کہانی ہے۔ آمد اور رسد کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں تک جاتا ہے بلکہ کیسے یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہتا ہے شاید لطافت کی کیفیات کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ویسے تو کثافت اور لطافت کی جوڑی بنا دی گئی ہے اور ساتھ ساتھ بت اور روح کا جھگڑا کروا دیا گیا ہے۔ شعور درمیان میں اپنا کردار نہ ادا کرے تو پھر اس لڑائی کی کہانی ناقابل بیان ہے۔ بہرحال شعور چوکڑی مار کر بیٹھا ہے اور حسب ضرورت پوری شدت سے کھڑا ہونے کی استعداد بھی رکھتا ہے۔ شعور کو مسلسل جگانے کیلئے آنکھیں کھول کے رکھنا پڑتی ہیں تاکہ حقیقت کے پانی سے شعور کے پودے کی آبیاری کی جا سکے۔ آبیاری کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس کام کو کرنے کیلئے مالی بننا پڑتا ہے اور مالی بننے کیلئے ریاضت کی ضرورت ہے اور ریاضت بھی اس لیول کی جہاں خون جگر دینے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اگر خون اصلی اور نسلی ہو تو سونے پر سہاگہ ہوتا ہے۔ تاہم خون خون ہوتا ہے اور خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔ مزید یہ کہ خون صد ہزار انجم کے نتیجے میں طلوع ہونے والے آفتاب کی کرنیں پوری کائنات کو جگمگا دیتی ہیں۔ ویسے نام کے آفتاب بے شمار پھرٹر رہے ہیں۔ کام کے بندوں کی اس دنیا کو ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے جیسوں کا درد محسوس کریں اور پھر کچھ نہ کچھ تو کریں۔شاید ہی پوری دنیا میں کوئی ایسی جگہ ہو یا پھر پوری دنیا میں کسی وقت سارے لوگ مقام ومرتبے اور حیثیت کے اعتبار سے ایک جیسے رہے ہوں۔ زندگی کی بھی ایک اپنی دوڑ ہے اور اس دوڑ میں حصہ لینے والے کبھی بھی ایک قطار میں نہیں دوڑ سکتے۔ ہر شخص اس کو جیتنے کی کوشش میں ہاتھ پائوں ماررہا ہوتا ہے اور سب کے جسمانی اعضا ایک جیسے نہیں ہوتے یوں ان کی دوڑنے کی رفتار بھی ایک جیسی نہیں ہو سکتی کوئی تو آگے نکل جاتا ہے بلکہ بہت ہی آگے نکل جاتا ہے اور بعض بہت ہی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ سوچ بچار کرنے والوں کو پیچھے رہ جانے والوں کی فکر کھائے جارہی ہے۔ ویسے اس بات پر خالق مطلق خود بڑا ہی متفکر ہوتا ہے۔ انسان اللہ تعالی کی صفات کا مظہر ہے لہٰذا ظاہری طور پر ابن آدم نے ہی ابن آدم کے لئے کوئی نہ کوئی تدبیر کرنی ہے۔ ہمارے ہی ارد گرد اگر دیکھا جائے تو بے شمار بچے بیماریوں کا شکار ہو کر اپاہج یا معذور ہو جاتے ہیں۔ ذہنی طور پر بھی مفلوج لوگ جا بجا مل جاتے ہیں۔ معاشی طور پر اونچ نیچ کا سلسلہ بھی فطری ہے۔ جوان بیٹی گھر میں بیٹھی ہے اور جہیز کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے والد بیٹی کو پیا گھر روانہ کرنے سے قاصر ہے۔ قابل اور ذہین بچے گھر میں محض اس لئے بیٹھے ہیں کہ باپ کے پاس ان کی فیسیں ادا کرنے کی سکت نہیں ہے۔ غربت کے ستائے لوگ خود کشی کرنے تک تیار ہو جاتے ہیں۔ بے بسی، لاچاری، مجبوری، مقہوری، معذوری وغیرہ وغیرہ اور پھر ارد گرد کا ماحول۔ اس پر تو آہ وبقا کی جا سکتی ہے۔ ٹھنڈی آہیں بھر کے وقت گزارا جا سکتا ہے یا پھر زندہ ہونے کا ثبوت پیش کیا جائے۔ انسان کے شایان شان موخرالذکر ہے ۔ اس کار خیر کیلئے زندہ دل کی ضرورت ہے اور زندہ دل بندے پیدا کرنے کیلئے اعلی تعلیم و تربیت ہونے کی ضرورت ہے۔ تب جا کر ایک دوسرے کا درد محسوس کیا جاتا ہے اور تب جا کر چراغ سے چراغ جلتا ہے اور اندھیروں میں نور پھیل جاتا ہے۔ ہر طرف رونق ہی رونق۔ کائنات بقہ انوارکسی بھی ملک کی تعمیر وترقی کے لئے ریاست کو تو اپنا کردار ادا کرنا ہی ہوتا ہے۔ عوام نے بھی اپنا ایک کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ بزرگان دین نے بھوک اور افلاس کو ختم کرنے کے لئے لنگر کے دسترخوان بچھا دیئے تھے اور پھر ویرانے مے کدے بن گئے تھے اور کہنے والوں نے تو کہہ دیا تھا (از صد سخن پیرم، یک نقطہ مرا یاد است۔عالم نشود ویراں تا میکدہ آباد است) آج بھی سٹیٹ اور سوسائٹی کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں طبقات اپنے اپنے لیول پر زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے افراد کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ مجموعی طور پر پاکستانی قوم کو کار آمد اور فعال بنایا جا سکے۔ محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کے حالیہ متعارف کروائے جانے والے پروگرام اس ضمن میں قابل ذکر ہیں جن میں مریم کی دستک، دھی رانی پروگرام، ہونہار پروگرام، اپنی چھت اپنا گھر، ہمت کارڈ پروگرام، کسان کارڈ، ٹریکٹر سکیم، آغوش پروگرام، لائیو سٹاک کارڈ، پنجاب سوشو اکنامک رجسٹری، مینارٹی کارڈ اور وغیرہ وغیرہ یقیننا اہمیت کے حامل ہیں اور ان اقدامات سے عملی طور پر پنجاب کے لوگوں کی محرومیوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ مزید قدم آگے بڑھانے کی بہت ہی ضرورت ہے بلکہ حکومت اور عوام کو قدم سے قدم ملانے کی ضرورت ہے۔ وقت کی ایک اپنی رفتار ہے اور ہم سب نے اس رفتار کی اہمیت کو جاننے کے لئے مائنڈ اپلائی کرنا ہے۔ آئیے پنجاب گورنمنٹ کی متعارف کروائی گئی ایپ ہائے پر دستک دیتے ہیں۔
16