19

تعلیم کے نام پر کاروبار اور مستقبل کی تباہی

پاکستان میں تعلیم کے نام پر کاروبار کا بڑھتا ہوا رجحان ملک کے مستقبل کے لیے ایک خاموش مگر انتہائی تباہ کن خطرہ بن چکا ہے۔ وہ ادارے جو قوم کے معمار تیار کرنے کا فرض نبھاتے تھے، افسوس کے ساتھ، اب نری کاروباری مراکز کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جہاں منافع سب سے اہم ہے اور معیار کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ یہ استحصال خاص طور پر پرائمری اور مڈل سکولوں کی سطح پر شدید تر ہے، جہاں طلبا کی تعداد بڑھانے کی اندھی دوڑ میں تعلیمی معیار پاتال کی گہرائیوں میں گر رہا ہے۔پرائیویٹ سکولوں میں کلاس رومز کی حالت یہ ہے کہ طلبا کی تعداد کا کوئی معیار مقرر نہیں کیا جاتا۔ کمرے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں، اور سکول مالکان صرف اپنی آمدنی بڑھانے کی خاطر من مانی سے داخلے دیتے چلے جاتے ہیں۔ ایک استاد کے لیے درجنوں بچوں پر انفرادی توجہ دینا تقریبا ناممکن ہو جاتا ہے، جس کا سیدھا نتیجہ تعلیم کے گرتے ہوئے معیار کی صورت میں نکلتا ہے۔ جب بنیادی سطح پر ہی طلبا کی تعلیم کی مضبوط بنیاد نہیں رکھی جائے گی تو ہماری آنے والی نسلیں کیسے مقابلہ کر پائیں گی؟اس صورتحال کو مزید بگاڑنے میں نا تجربہ کار اساتذہ کا کردار بھی اہم ہے۔ سکول مالکان، تنخواہوں کی مد میں بچت کرنے کے لیے، تجربہ کار اور تربیت یافتہ اساتذہ کو بھرتی کرنے کے بجائے تازہ گریجویٹس کو کم اجرت پر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ نو آموز اساتذہ، تجربے اور مناسب تربیت کی کمی کی وجہ سے، طلبا کو وہ مناسب تعلیم اور رہنمائی فراہم نہیں کر پاتے جو ملک کے مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا مستقبل، ان ہاتھوں میں ہے جنہیں خود ابھی مزید سیکھنے اور تجربہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔آکسفورڈ سلیبس جیسے فینسی ناموں کا استعمال والدین سے اضافی فیسیں بٹورنے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ سلیبس بظاہر تو معیار کا تاثر دیتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ اکثر طلبا اور والدین پر ایک اضافی مالی اور تعلیمی بوجھ ثابت ہوتا ہے۔ والدین مجبورا اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے اضافی ٹیوشن پر خرچ کرتے ہیں، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ سکول کی تعلیم ہی ناکافی ہے۔والدین کو یونیفارم، نوٹ بک، اور دیگر مواد کے نام پر بھی بے دریغ لوٹا جاتا ہے۔ سکول مالکان نے ان چیزوں کو اپنی آمدنی کا ایک اضافی ذریعہ بنا لیا ہے اور والدین پر دبا ڈالا جاتا ہے کہ وہ تمام اشیا صرف سکول سے ہی خریدیں۔ یہ ایک ایسی منظم لوٹ مار ہے جو غریب اور متوسط طبقے کے والدین کی کمر توڑ کر رکھ دیتی ہے اور تعلیمی نظام کے کاروباری چہرے کو مزید نمایاں کرتی ہے۔فیس وصول کرنے کی پالیسی بھی اس استحصال کی ایک المناک مثال ہے۔ سکول صاحبان گرمیوں اور سردیوں کی تعطیلات کے دوران بھی باقاعدگی سے ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں۔ اگر ہم سکولوں کے کھلنے اور بند ہونے کے دنوں کا حساب لگائیں تو یہ واضح ظلم سامنے آتا ہے کہ والدین سے ان دنوں کی بھی پوری فیس وصول کی جاتی ہے جب بچے سکول نہیں آتے۔ یہ خالصتا تعلیم کی بجائے کاروبار کا ثبوت ہے۔یہ کاروبار کا سلسلہ آئندہ نسلوں کے مستقبل کو دا پر لگا رہا ہے۔ جب تعلیم کی بنیادی جڑیں ہی کھوکھلی کر دی جائیں گی، تو ملک کی تخلیقی صلاحیت، جدت اور ترقی کیسے ممکن ہو گی؟ غیر معیاری تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فوج ملک کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل نہیں بنا سکتی۔ یہ صرف افراد کا نہیں، بلکہ قوم کا اجتماعی نقصان ہے، جو ہمیں برسوں پیچھے دھکیل دے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس قومی المیے کی سنگینی کو محسوس کرے اور فوری طور پر سخت اقدامات کرے۔ تعلیمی اداروں کو کاروباری مراکز بننے سے روکنے کے لیے مضبوط ریگولیٹری میکانزم اور سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ خاموش نہ بیٹھیں، بلکہ اپنے بچوں کے تعلیمی حقوق کے لیے آواز اٹھائیں اور ان اداروں کا بائیکاٹ کریں جو معیار کی بجائے صرف پیسے کو اہمیت دیتے ہیں۔ ورنہ یہ بڑھتا ہوا استحصال ہمارے ملک کی آنے والی نسلوں کے تابناک مستقبل کو نگل جائے گا اور ہم ایک علمی بحران سے دوچار ہو جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں