لاہور(بیوروچیف)پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک جاری ہے ۔گزشتہ ہفتے جب تحریک کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کی جانب سے رضاکارانہ گرفتاریوں کے حوالے سے مختلف طرح کے موقف سامنے آتے رہے ۔کچھ رہنما ان گرفتاریوں کو تحریک انصاف کی لیڈرشپ اور کارکنوں کی بہادری سے تعبیر کرتے دکھائی دیے تو کچھ نے اسے انسانی حقوق کی پامالی سے تعبیر کیا۔ لاہور سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوا تو پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ عمران خان نے انہیں گرفتاری دینے سے منع کر دیا ہے ۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ لیڈرشپ کا جیل سے باہر رہنا ضروری ہے تاکہ تحریک کو کامیاب بنایا جا سکے ۔اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے 200 کارکنوں اور پانچ رہنماؤں کی فہرست مرتب کی گئی جنہوں نے ابتدائی مرحلے پر چیئرنگ کراس پر گرفتاری دینا تھی۔تاہم لاہور چیئرنگ کراس پر موجود تحریک انصاف کے اکثر رہنما قیدیوں کی گاڑی میں پائے گئے جس کی تصویر خود تحریک انصاف نے جاری کی۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پارٹی رہنما مسرت جمشید چیمہ اور دیگر نے بیانات جاری کیے کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے کمال بہادری سے گرفتاری دی اور کارکنوں نے ساتھ نبھانے کا حق ادا کر دیا۔اگلے روز صورت حال بالکل ہی مختلف دکھائی دی جب شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی اور بیٹی ماہ نور قریشی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی کہ ان کے والد کو حکومت نے غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے ۔ سینیٹر ولید اقبال کی اہلیہ نے بھی عدالت میں اپنے شوہر کی جبری گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ان دو درخواستوں کے بعد پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے فوکل پرسن اعجاز چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے 9 رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کردی۔مجموعی طور پر ان درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے ، عدالت ان کی فوری بازیابی کا حکم دے ۔ جیل بھرو تحریک کے کنوینر اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم اپنے رہنماؤں کی رہائی نہیں چاہتے اور نہ ہی اس کے لیے تگ و دو کررہے ہیں۔ہمارا ہائی کورٹ جانے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو روکا جائے ۔ پنجاب حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا کہ لاہور کی ضلعی حکومت نے گرفتار 77 کارکنوں اور رہنماؤں پر نقضِ امن پیدا کرنے کے جرم میں 16 ایم پی او کے قانون کا نفاذ کیا ہے ۔جیل میں ان لوگوں کو کتنا عرصہ رکھنا ہے اس کا فیصلہ پنجاب کی وزرات داخلہ کرے گی۔ یہ قید 30 سے 90 دن تک ہو سکتی ہے ۔
43