سپریم کورٹ میں پنجاب اور KPKمیں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران حکومتی اتحاد نے 2 ججز پر اعتراض کرتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی ہے جس کے بعد عدلیہ پر بھی سوالات جنم لے رہے ہیں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ججز ہماری حدود میں داخل ہوں گے تو آواز اٹھانا ہمارا حق ہے دو صوبوں میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے سماعت کیلئے فل کورٹ بنائی جائے انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو ری رائٹ کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ایک شکایت رہتی ہے کہ پارلیمنٹرینز ججز کا نام لیکر تنقید کرتے رہتے ہیں پوچھنا یہ ہے کہ کچھ ججز پر تنقید کی جاتی ہے تو کچھ ججز پر کیوں نہیں کی جاتی 2 صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل درست ہوئی ہے یا نہیں؟ آئین کو ری رائیٹ کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے جس طرح آرٹیکل63 کو ری رائیٹ کیا گیا یہ اس کے اثرات ہیں نواز شریف کی حکومت ختم کر کے زیادتی کی گئی اور ان کو تاحیات نااہل کیا گیا ججز کے ریمارکس موجود ہیں کہ نواز شریف کے کیس میں تجاوز کیا گیا شاہ محمود قریشی کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی کی گئی فل کورٹ تشکیل دیکر پانامہ کیس سے لیکر تمام کیسز پر نظرثانی کی جائے،، قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور سپریم کورٹ میں پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے 9 رکنی عدالتی بنچ کے حوالے سے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ 2ججز کے بنچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے مذکورہ ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ہیں جن پر اعتراض کیا جا رہا ہے دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پنجاب اور کے پی انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کا نہیں تھا، تجزیہ کار حامد میر شاہ زیب خان زادہ منیب فاروق انصار عباسی نے ایک خصوصی شو میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں تقسیم بدقسمتی اور خطرناک ہے سوموٹو نوٹس کی بنیاد بڑی ناقص ہے، سوال یہی اُٹھ رہا ہے کہ سینئر جج سردار طارق اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بنچ میں کیوں شامل نہیں کیا گیا پاکستان بار کونسل بھی ایک جج صاحب پر اعتراض اٹھا رہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ جج صاحب بنچ میں شامل ہو جاتے ہیں جس پر بنچ پر سوالات اٹھ رہے ہیں سینئر ترین جج جو ہوتے ہیں وہ اگلے چیف جسٹس ہوتے ہیں ان کا تمام اہم معاملات میں شامل ہونا ضروری ہوتا ہے بنچ کے اندر سے ہی یہ بات اُٹھ گئی ہے کہ یہ سوموٹو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا ایک جج صاحب کی آڈیو لیک آ گئی ہے تو اس پر خاموشی ہے یہ چیزیں تقسیم کو ظاہر کر رہی ہیں جو اچھی علامت نہیں،، چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ ازخود نوٹس میرا دائرہ اختیار ہے انتخابات کی تاریخ سمیت کئی واقعات کو دیکھا ہے آئین پاکستان نے خود عدالت کے دروازے پر دستک دی ہے معاملہ پیر کو سنیں گے،، سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت سوموار کو ہو گی سماعت کے بعد ہی صورتحال کا علم ہو سکے گا کہ آیا سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے کیا صورتحال سامنے آتی ہے حکومتی اتحاد کی جانب سے دو ججز کو بنچ سے نکالنے اور فل کورٹ بنانے کی استدعا عدالت منظور کرتی ہے یا نہیں لہٰذا اس حوالے سے انتظار کرنا ہو گا…
33