تحریر: رشید احمد نعیم
پھر دیکھ کس طرح برستی ہے رحمت کی خدا کی
تو اس کے سامنے اک بار سر جھُکا کے تو دیکھ
حضرت براء ابن عازب روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا”تم اس شخص کی خوشی کے بارے میں کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی جنگل میں اپنی نکیل رسی گھسیٹتی ہوئی نکل جائے جہاں نہ کھانا ہو نہ پانی اور اس کا کھانا اور پانی اس اونٹنی پر رکھا ہو اور وہ شخص اونٹنی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جائے، پھر وہ ا ونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل (رسی) درخت کے تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ انٹنی اسی تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہۖ! اس شخص کو بہت زیادہ خوشی ہو گی۔ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا سنو! جتنی خوشی اس شخص کو(ایسے سخت حالات میں مایوس ہونے کے بعد) سواری مل جانے سے ہوتی ہے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ اسی حوالے سے ایک سبق آموز واقعہ پیش خدمت ہے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا زمانہ ہے۔ آپ کی ایک شاگردہ جو باقاعدہ آپ کا درس سننے آتی تھی۔ نہایت عبادت گزار تھی۔ اس بے چاری کا جوانی میں خاوند چل بسا۔ اس نے دل میں سوچا! ایک بیٹا ہے اگر میں دوسرا نکاح کرلوں گی تو مجھے دوسرا خاوند تو مل جائے گا’ لیکن میرے بچے کی زندگی برباد ہوجائے گی۔ اب بچہ جوان ہونے کے قریب ہے۔ ”یہی میرا سہارا سہی” لہٰذا اس عظیم ماں نے یہی سوچ کر اپنے جذبات کی قربانی دی۔وہ ماں گھر میں بچے کا پورا خیال رکھتی لیکن جب وہ بچہ گھر سے باہر نکل جاتا تو ماں سے نگرانی نہ ہوپاتی۔اب اس بچے کے پاس مال کی کمی نہ تھی۔ اٹھتی ہوئی جوانی بھی تھی یہ جوانی دیوانی مستانی ہوجاتی ہے۔چنانچہ وہ بچہ بری صحبت میں گرفتار ہوگیا۔ شباب اور شراب کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ماں برابر سمجھاتی لیکن بچے پر کچھ اثر نہ ہوتا’ چکنا گھڑا بن گیا۔وہ اس کو حضرت حسن بصر ی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس لے کر آتی’ حضرت حسن بصر ی رحمتہ اللہ علیہ بھی اس کو کئی کئی گھنٹے سمجھاتے لیکن اس بچے کا نیکی کی طرف رجحان ہی نہیں تھا۔ حضرت حسن بصر ی رحمتہ اللہ علیہ کے دل میں بھی یہ بات آئی کہ شاید اس کا دل پتھر بن گیا ہے۔مہر لگ گئی ہے۔ بہرحال ماں تو ماں ہوتی ہے۔ ماں اسے پیار سے سمجھاتی رہی۔ میرے بیٹے نیک بن جاو’تمہاری زندگی اچھی ہوجائے گی۔کئی سال برے کاموں میں لگ کر اس نے اپنی دولت کے ساتھ اپنی صحت بھی تباہ کرلی اور اس کے جسم میں لاعلاج بیماریاں پیدا ہوگئیں’معاملہ یہاں تک آپہنچا کہ اٹھنے کی بھی سکت نہ رہی اور بستر پر پڑگیا۔ اب اس کو آخرت کا سفر سامنے نظر آنے لگا’ ماں نے پھر سمجھایا۔”بیٹا! تو نے اپنی زندگی توخراب کرلی’ اب آخرت بنالے اور توبہ کرلے’اللہ بڑا غفور الرحیم ہے وہ تمہارے تمام گناہوں کومعاف کر دیگا” ۔جب ماں نے سمجھایا اس کے دل پر کچھ اثر ہوا۔کہنے لگا!”ماں میں کیسے توبہ کروں؟ میں نے بہت بڑے بڑے گناہ کیے ہیں”۔ماں نے کہا”بیٹا! حضرت حسن بصر ی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھ لیتے ہیں”۔بیٹے نے کہا ”ماں اگر میں فوت ہوجاوں تو میرا جنازہ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ پڑھائیں”۔ماں حضرت حسن بصر ی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس گئی۔ حضرت کھانے سے فارغ ہوئے تھے اور تھکے ہوئے تھے اور درس بھی دینا تھا۔ اس لیے قیلولہ کیلئے لیٹنا چاہتے تھے۔ ماں نے دروازہ کھٹکھٹایا’ پوچھا کون؟ عرض کیا ”حضرت میں آپ کی شاگردہ ہوں۔ میرا بچہ اب آخری حالت میں ہے وہ توبہ کرنا چاہتا ہے لہٰذا آپ گھر تشریف لے چلیں”۔حضرت نے سوچا یہ پھر دھوکا دے رہا ہے اور میرا وقت ضائع کرے گا اور اپنا بھی کرے گا۔ سالوں گزرگئے اب تک کوئی بات اثر نہ کرسکی اب کیا کرے گی۔ کہنے لگے!”میں اپنا وقت ضائع کیوں کروں؟ میں نہیں آتا”۔ ماں نے کہا”حضرت جی! اس نے تو یہ بھی کہا کہ اگر میرا انتقال ہوجائے تو میرا جنازہ حضرت حسن بصری پڑھائیں”۔ حضرت نے کہا ”میں اس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھاوں گا۔ اس نے تو کبھی نماز ہی نہیں پڑھی”۔ اب وہ شاگردہ تھی چپ کرگئی’ روتی ہوئی گھر آگئی۔بیٹے نے پوچھا ”کیا ہوا؟” ماں نے کہا”ایک طرف تیری یہ حالت ہے، دوسری طرف حضرت نے انکار کردیا”۔ اب یہ بات بچے نے سنی تو اس کے دل پر چوٹ لگی اور کہا”ماں میری ایک وصیت سن لیجئے ماں نے پوچھا ”بیٹا وہ کیا؟”کہا”امی میری وصیت یہ ہے کہ جب میری جان نکل جائے تو سب سے پہلے اپنا دوپٹہ میرے گلے میں ڈالنا’ میری لاش کو کتے کی طرح صحن میں گھسیٹنا’ جس طرح مرے ہوئے کتے کی لاش گھسیٹی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے )
40