ایک وقت تھا جب سرزمین ہندوستان کا یہ حال تھا کہ انسانیت برہمن،شودر،ویش اور کھتری میں تقسیم تھی۔ شودر کو ہاتھ لگانے سے بندہ ناپاک ہو جاتا تھا۔ ہر قسم کے وسائل پر برہمن نے اپنے پنجے گاڑھے ہوئے تھے۔ ویش اور کھتری کا واجبی سا کردار تھا اور ان سارے کرداروں کی موجودگی میں ہندوستان کی فضا تعصب اور نفرت سے پوری طرح مغلظ تھی۔ بھائی بھائی کے خلاف نفرت اور کینہ پروری کی بدولت کچھ بھی کرسکتا تھا۔ یہاں پتھر کے صنم بت کدوں میں بھگوان بنے ہوئے تھے اور معبود ملائک مورتیوں اور بتوں کے سامنے سجدہ ریز تھے۔ تجارت کی غرض سے لوگ یہاں آتے تھے۔ حکمرانی کے شوق میں بھی دور دور سے حملہ آور وارد ہوتے تھے لیکن کوئی خدا کے لئے یہاں کی خدا کی مخلوق کو حق کی بات کہنے کے لئے کبھی نہ آیا تھا۔ وسطی ایشیا کے جب حکمرانوں نے یہاں آنے جانے کا راستہ کھولا تو پہلے پہل سید داتا علی ہجویری اور سید اسماعیل بخاری آنے اور پھر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری آئے اور پھر ہند کی دھرتی صوفیا کے حوالے سے جانی پہچانی جانے لگی۔ جہالت اور گمراہی کی دنیا میں وحدانیت اور الوہیت کے چراغ روشن کردیئے گئے۔ انسان کو اس کے اصل مقام اور مرتبے کے بارے میں اچھی طرح سمجھا دیا گیا۔ رام رام جپنے والے اللہ ہو اللہ ہو کے ورد کرنے لگے اور ذات پات کی بنیاد پر بٹی ہوئی قوم کو اخوت، پیار اور محبت کی مالا میں پرودیا گیا۔ بے شمار خانقاہیں بن گئیں اور یہاں سے فیض یاب لوگوں نے پورے ہندوستان میں معاشرتی و مذہبی انقلاب برپا کیا۔ اس انقلاب کے جزائے ترکیبی میں لنگر، علم وتحقیق، بھائی چارہ، زہدوتقوی، فقرواستغنا، بردباری، “میں” کی تدفین وغیرہ قابل ذکر تھے۔ یہ ہیں صوفیا کرام۔ بقول علامہ محمد اقبال
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
حضرت خواجہ معین الدین چشتی یکم فروری1143کو وسطی ایشیا (سیستان) میں پیدا ہوئے اور 5رجب المرجب/15مارچ 1236 کو اجمیر ہندوستان میں آپ کا وصال ہوا آپ نے اپنی ظاہری اور باطنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہندوستان کا رخ کیا۔ اپنے علمی اور روحانی قد کاٹھ کی بدولت سوچ کے اعتبار سے اس خطہ کے لوگوں کی سوچ کا رخ بدل دیا اور ملحد اور بے دین لوگوں کے اندر اپنے مالک حقیقی کے بارے میں سوچنے کی سوچ پیدا کر دی۔ صوفیا کے آنے سے پہلے ہندو راجوں نے پورے معاشرے کو جادو ٹونے سے مرعوب کیا ہوا تھا اور ظاہری طاقت سے سب کو محکوم بنایا ہوا تھا۔ صوفی آئے اور انہوں نے علم کی بدولت ان کی آنکھوں کی بینائی بحال کی اور اپنی روحانی طاقت کی بدولت جادوئی طلسم توڑ کر من کی دنیا پر توجہ مرکوز کرنے کا لوگوں کو احساس دلایا۔ اجتہاد کی بدولت اس وقت کی مکروہ موسیقی کو قوالی میں تبدیل کرکے لوگوں کو اللہ کے نام پر بے خود اور وارفتہ ہونے پر مجبور کیا۔ بھوک اور افلاس کو لنگر کا اعلیٰ نظام متعارف کروا کر ختم کر دیا۔ یوں انسان کی مکمل تربیت کا پروگرام شروع کردیا گیا۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ خواجہ اجمیر سے فیض یاب قطب الدین بختیار کاکی دلی میں آکر اجمیری سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ دہلی سے خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر نکلتے ہیں اور اجودھن تک کے باسیوں کو اسلام کی نعمت سے سرفراز فرما دیتے ہیں۔ان کے علاوہ خواجہ علی احمد صابر، خواجہ نظام الدین محبوب الہی اور بے شمار خلفا ہندوستان کے طول وعرض میں پھیل جاتے ہیں اور اس کے بعد اس ساری کہانی کا سلسلہ مزید طویل ہو جاتا ہے۔ ایسے تو نہ آپ کو پاک و ہند کے چپے چپے پر خانقاہیں نظر آرہی ہیں۔
ہندوستان میں ہمیشہ ہی موسیقی کا بڑا رجحان رہا ہے۔ لوگوں کا خیال تھا موسیقی میں بھگوان بولتا ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ موسیقی سے انسان گمراہ ہو جاتا ہے۔ یہ بے حیائی اور فحاشی کا باعث ہوتی ہے۔ موسیقی نازک مسئلہ، جدت سوچ کے لئے ضروری، لوگوں کو
اسلام کی تعلیمات کے قریب لانا اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری۔ آپ اپنے وقت کے عالم باعمل تھے۔ ان کا وجدان کا میدان عبادتوں اور ریاضتوں سے مکمل طور پر آباد تھا۔ وقت کی ضرورت کا بھی ان کے ہاں گہرا شعور تھا۔ بطور مبلغ وہ اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ فنی اور فکری لحاظ سے پختہ شاعر تھے۔ ان کے ہاں علم موسیقی کا بھی گہرا شعور تھا۔ان کے ارادے غیر متزلزل تھے۔ ہندوستان میں اپنے ٹارگٹ کا تعین بھی وہ کرچکے تھے۔ یوں انہوں نے اللہ کا نام لیا اور اس وقت کی موسیقی کو شرک اور کفر کے بھجنوں سے پاک کردیا اور فن موسیقی کو حمدیہ اور نعتیہ شاعری سے مزین کیا۔ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا اور یقینا بڑے لوگ ہی بڑے فیصلے کرتے ہیں۔ اس اجتہاد سے یہ فیصلہ ہوگیا کہ ہندوستان میں اب ہر طرف اللہ ہو اللہ ہو کی صدائیں گونجیں گی۔ سارے صوفی اول تو خود شاعر ہوتے تھے نہیں تو شاعری بخوبی سمجھتے تھے۔ شاہ است حسین جیسی معیاری شاعری واقعہ کربلا کے بارے میں آپ کو کم ہی سننے میں ملے گی۔ بابا فرید کے اشلوک اللہ کی الوہیت، دنیا کی بے ثباتی، من وتن کے معاملات کی تعلیم وتربیت وغیرہ کے مضامین سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ خواجہ امیر خسروکی خواجہ نظام الدین محبوب الہی سے عشق و محبت میں کی گئی شاعری محفل سماع کی کیف و سرور کی حالت کا کلائمکس ہے۔ ایسے تو نہ بابا فرید دلی سی نکل کر اجودھن پہنچتا ہے تو یہ ساری سرزمین پاک پتن اور آنے والے وقت میں پاکستان میں بدل جاتی ہے۔ آج بھی امیر خسرو کی دھنوں اور شاعری پر یہ سارا علاقہ وارفتگی اور بے خودی میں جھومنے لگتا ہے۔ بلاشبہ سر زمین ہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے احسانات کی مقروض ہے۔ کافروں کو کلمہ پڑھایا گیا۔مردہ دلوں کو زندہ کیا گیا۔ تقلید کی دنیا میں اجتہاد کی بدولت امت مسلمہ کو سوچنے پر مجبور کیا گیا۔ آج امت مسلمہ کن مسائل کا شکار ہے۔ کائنات عالم میں ہم نے کیا کرنا ہے اور ہم کیا کررہے ہیں۔ ہمارے گفتار اور کردار میں کتنے میلوں کی مسافت ہے۔ معاملات کیا آگے بڑ ھ رہے ہیں یا بحیثیت قوم ہم معاملات کو مزید ا لجھا رہے ہیں۔ آئیں رسم چشتی واجمیری ادا کر تے ہیں یعنی سوچ بچار کرتے ہیں اور ہم جو ز ند گی کی دوڑ میں بہت ہی پیچھے رہ گئے وہ میلوں کا فاصلہ راتوں رات طے کرتے ہیںسلسلہ چشتیہ اور محفل سماع لازم و ملزوم ہیں۔ آج بھی درگاہوں پر محفل سماع کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مذکورہ سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ 5 رجب المرجب حضرت معین الدین چشتی کا تاریخ وصال ہے اور اس سلسلے میں پاکستان میں محفل سماع منائی جاتی ہیں۔ لاہور میں ڈیرہ معینیہ واقع ماڈل ٹائون پر پیر سید غلام معین الحق گیلانی پیر صاحب آف گولڑہ شریف نے ایسی ہی ایک محفل سماع کا انعقاد کیا۔ ان کے اپنے ، بابا فریدالدین مسعود گنج شکر اورخواجہ امیر خسرو اور ان کے اپنا کلام گا کر قوالوں نے واقفان آداب محفل سماع کو بڑا ہی مسرور کیا۔ اللہ و رسول کا نام، صاحب حال شعرا کا کلام اور پھر ساقی کی نظر کا جام۔ یہ ہیں محفل سماع کے انعام۔ اس محفل میں سلسلہ چشتیہ اور درگاہ گولڑہ شریف کا خصوصی رنگ بدرجہ اتم موجود تھا۔ البتہ تصوف کے مروجہ طریقے سے ہٹ کر نوٹوں کی قوالوں پر بارش سوچ سے بالا تر۔ کاش ہم خواجہ نظام الدین محبوب الہی کے ترتیب دیئے ہوئے آداب محفل سماع، قوالوں اور شرکا محافل کو پڑھا بھی دیں اور پوری طرح سمجھا بھی دیں تو سامعین بجز اپنے اندر جھاتی مارنے کے کچھ بھی نہ کریں گے۔ قوالوں کی نظر نوٹوں کی بجائے شیخ کے چہرے پر ہوگی اور شیخ مستغرق الی اللہ ہوگا۔
50