27

دھی رانی پروگرام… مریم نواز کا مثبت اقدام

وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کا وژن ”گھر بنائیں گے بھی، گھر بسائیں گے بھی” عوام میں مقبول عام ہو چکا ہے، یہ بات خوش آئند ہے کہ ”دھی رانی پروگرام” کے تحت 1500 شادیوں کی اجتماعی تقریبات کااہتمام کیا گیا، فیصل آباد میں بھی گزشتہ دنوں 36جوڑوں کی شادیاں بخیروبخوبی سرانجام پائیں اور ان شادیوں کی اجتماعی تقریب میں صوبائی وزیر پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ خواجہ عمران نذیر’ سیاسی وسماجی شخصیات’ ارکان اسمبلی’ ڈویژنل کمشنر محترمہ مریم خان’ ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) ندیم ناصر’ ایڈمن آفیسر ریاض حسین انجم سمیت دیگر افسران اور نوبیاہتا جوڑوں کے عزیز واقارب نے شرکت کر کے شادیوں کی اجتماعی تقریب کو چار چاند لگا دیئے، شادیوں کے تمام اخراجات حکومت پنجاب کی طرف سے اٹھائے جا رہے ہیں، اس پروگرام کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ اس کا مقصد غریب اور مستحق خاندانوں کی مالی معاونت اور انہیں خوشیوں کے مواقع فراہم کرنا ہے، اسلام میں شادی ایک مقدس سماجی بندھن ہے جو ایک خوشحال اور مستحکم خاندانی زندگی کی بنیاد ہے، موجودہ معاشی صورتحال اور مالی مشکلات کی وجہ سے بہت سے نادار والدین اپنے بچوں کی شادی نہیں کر پا رہے جبکہ یتیم لڑکیوں کو بھی اس معاملے میں جو مشکل پیش آتی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں جہیز ایک معاشرتی ناسور بن چکا ہے، جہیز لینے والے کی ہوس اور دینے والے کی مجبوری کہلاتی ہے، یہ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا دھچکا ہے، خاص طور پر ان لڑکیوں کے لیے جو غریب والدین کی اولاد ہوتی ہیں اور جہیز کے نہ ہونے سے شادی کی عمر کو والدین کے گھر میں ہی گزار دیتی ہیں، وہ والدین کے گھر میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں، کم جہیز لیکر جائیں تو سسرال والے جینے نہیں دیتے، بے جا مطالبات اور خواہشات ایسی ہوتی ہیں جو سسرال والوں کی اپنے بیٹے اور بہو سے وابستہ ہوتی ہیں اور اسی جہیز کی شکل میں انہوں نے بہت سے کام پورے کرنے ہوتے ہیں، یہ سارے لوازمات پورے کرتے کرتے چاہے لڑکی والوں کے گھر بک جائیں یا غریب ماں باپ قرض کے بوجھ سے مر جائیں، ان باتوں کا جہیز لینے والوں کو کوئی احساس نہیں ہوتا، جہیز کے ناسور سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے بہت کچھ کرنیکی ضرورت ہے اور سبھی لوگوں کو اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، دین اسلام عورت کو حق مہر اور عورت کو والدین کی جائیداد سے حصہ فراہم کرتا ہے، کاش ہم اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوں، یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ہاں جہیز کی رسم اس قدر پھیل چکی ہے کہ ایک غریب شخص جو اپنا اور اپنے اہلخانہ کا پیٹ بمشکل پالتا ہے، بیٹی پیدا ہوتے ہی اسے یہ فکر لگ جاتی ہے کہ وہ اس کی شادی کیسے کرے گا، لڑکیوں کے والدین اس امید پر زیادہ جہیز دینا چاہتے ہیں کہ جہیز کم ہونے کی صورت میں ان کی لڑکی کو طعنے نہ سننے پڑیں لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم جہیز جیسے معاشرتی ناسور سے چھٹکارہ حاصل کرنے پر توجہ دیں، اس سلسلے میں اہل ثروت لوگوں کو پہل کرنی چاہیے، اگر یہ لوگ شادی بیاہ میں سادگی اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ غرباء بھی ان کی پیروی نہ کریں، یہ بات قابل قدر ہے کہ بہت سے لوگ اس بُرائی کو ختم کرنیکی کوشش کر رہے ہیں، یہ اپنے بچوں کی شادی بیاہ سادگی سے مسجد میں کرتے ہیں اور لڑکی کو معمولی سامان کے ساتھ وہاں سے رخصت کر دیتے ہیں، اگر نوجوان لڑکے بھی اس بُرائی کے خاتمہ کیلئے میدان عمل میں آئیں تو اس کے نہایت اچھے نتائج برآمد ہونگے، نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ شادی کے موقع پر جہیز لینے سے ہی انکار کر دیں، شادی ایک مقدس فریضہ ہے اور جہیز جیسی رسومات نے اسے مشکل بنا دیا ہے، نکاح کرنا سنت نبویۖ ہے، اولاد کا طلب کرنا بھی نکاح کے مقاصد میں ہے، امت محمدیہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے افراد کا زیادہ ہونا بھی ایک اہم مقصد ہے جس کی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تمنا فرمائی، آپۖ نے ارشاد فرمایا میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا، لڑکا یا لڑکی جب بالغ ہوجائے تو جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیے، بشرطیکہ کہ لڑکا اپنی بیوی کا نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا اس کا والد اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو، ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔حدیث کا مفہوم ہے کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمے داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرائے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک اور گناہ گار ہوگا۔اس لیے نکاح کو آسان عام بنائیں۔ نکاح سنت ِ انبیائے کرام علیہم السلام ہے: رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ”چار چیزیں انبیائے کرام (علیہم السلام) کی سنت میں سے ہیں: حیائ، خوش بو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح۔ بے نکاح مرد اور بے نکاح عورت محتاج اور مسکین ہے:رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ”مسکین ہے، مسکین ہے وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ وہ بہت مال والا ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپۖ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ بہت مال والا ہو۔ پھر فرمایا: مسکین ہے، مسکین ہے وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ بہت مال دار ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں!اگرچہ مال والی ہو۔یہ بات قابل قدر ہے کہ ”دھی رانی پروگرام” کے تحت 1500 شادیوں کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اب دوسرے مرحلے میں 1500 شادیوں کے لیے درخواستوں کی وصولی کا آغاز ہو چکا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف جس احسن انداز میں یہ ذمہ داری ادا کر رہی ہیں وہ قابل صد تحسین ہے لہٰذا مستحق اور غریب لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں