پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا عمل مکمل ہونے کے ساتھ ہی پنجاب کا سیاسی فرنٹ پھر سرگرم ہو گیا ہے وزیراعظم شہباز شریف’ سابق صدر آصف علی زرداری’ سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت’ مولانا فضل الرحمان نے سرجوڑ لئے ہیں دوسری جانب عمران خان کی جانب سے حکمران اتحاد پر تابڑ توڑ حملے جاری ہیں وہ چاہتے ہیں کہ وفاق میں بھی سیاسی ہلچل پیدا کی جائے عمران خان کی حکمت عملی ہے کہ ایم کیو ایم اور حکومت میں دوریاں پیدا ہوں اور وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا جائے ایوان صدر کو گرین سگنل ملتے ہی وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کا کہا جا سکتا ہے، قومی اسمبلی ابھی تک حقیقی اپوزیشن سے محروم ہے جس سے عوامی نمائندگی کے سب سے بڑے ادارے کی ساکھ بھی مجروح ہوئی ہے کمزور پارلیمنٹ کی وجہ سے دیگر ادارے فیصلہ سازی کی جگہ لے رہے ہیں سیاسی بحران ہے کہ ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہا (ن) لیگ کے قائد نواز شریف کی عدم موجودگی میں پارٹی بکھر رہی ہے جس کو کنٹرول نہ کیا گیا تو پارٹی کیلئے آئندہ الیکشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے فی الحال نواز شریف کی فوری واپسی کے امکانات نظر نہیں آ رہے مریم نواز کی وطن واپسی کا اعلان ہو چکا اسلام آباد میں ایک اہم خبر گردش کر رہی ہے کہ رواں ہفتے میں عمران کے خلاف بڑا فیصلہ آنے والا ہے جس کے نتیجہ میں نااہلی’ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ اور پارٹی چیئرمین شپ سے علیحدگی کے امکانات واضح ہو رہے ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کے ان کے خلاف ہر وہ کام ہو گا جو میاں نواز شریف کے خلاف ہوا تھا رواں ہفتہ کئی فیصلوں کا منتظر ہے اسی ہفتے نگران سیٹ اپ قائم ہو گا مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے مابین مکالمے کا کوئی معاملہ نہیں اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر میں مشاورت بے نتیجہ ہو گی پارلیمانی کمیٹی بھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گی دونوں طرف سے نگران وزیراعلیٰ کیلئے تین تین مجوزہ ناموں کا پینل چیف الیکشن کمشنر کے پاس جائے گا اور اس میں سے جس نام پر الیکشن کمیشن مارک لگائے گا وہی نگران وزیراعلیٰ ہو گا پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف کمپین سے مبصرین اندازہ کر رہے ہیں کہ دونوں صوبوں میں پی ڈی ایم کے نامزد کردہ نگران وزرائے اعلیٰ بنیں گے حالات بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کیلئے نئی آزمائش نیاء عرصہ امتحان شروع ہو چکا ہے عمران خان کے خلاف کیسز کے فیصلے آ رہے ہیں کیئر ٹیکرز میں ان کا شیئر نظر نہیں آتا جبکہ اگلے 90روز کے تمام انتخابی فیصلوں کیلئے انہیں الیکشن کمیشن پر انحصار کرنا پڑے گا جس کے خلاف انہوں نے 9ماہ سے ایک بھرپور مہم چلا رکھی ہے سیاسی منظر دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے عمران خان کے چاہنے والوں کیلئے ناپسندیدہ فیصلے بھی سامنے آ سکتے ہیں اور آنے والے فیصلوں کے بعد پتہ چلے گا کہ عمران کے ووٹرز اور سپورٹرز کس حد تک مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں آئندہ چند روز میں فیصلہ ہو جائے گا،، عمران خان نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کے خلاف جو بیانیئے گھڑے ان کو عوام میں بہت پذیرائی ملی ان کی جارحانہ سیاست نے انہیں ایک مقبول ترین سیاست دان تو بنا دیا مگر اب ان کی گردن سے سریا نکلنے والا ہے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو چکی KP میں بھی کل تک ان کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا دو صوبوں میں 90روز کے اندر الیکشن ہوں گے تو ممکن ہے عمران خان کو پہلے والی پذیرائی نہ مل سکے کیونکہ اب ان کا ساتھ دینے والی قوتیں نیوٹرل ہو چکی ہیں اور اب عمران کو اپنی قوت پر ہی انحصار کرنا ہو گا الیکشن کمیشن کے خلاف جو مہم انہوں نے چلائی اس کا نتیجہ بھی سامنے آنے والا ہے اسی ہفتے عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن سے بڑا فیصلہ آنے کا امکان ہے جس کے بعد پی ٹی آئی میں ایک ایسی سیاسی ہلچل مچے گی جس کا شائد ان کو اندازہ نہیں سیاسی مبصرین کے مطابق عمران خان کی نئی آزمائش شروع ہو چکی ہے میں کوئی شک شبہ نہیں عمران خان کے تمام بیانیئے اور سیاسی پتے آہستہ آہستہ استعمال کئے جا چکے ہیں اب ان کے پاس ملک کے عوام کو اپنے پیچھے لگانے کیلئے کوئی بیانیہ نہیں بچا اب وہ آخری رائونڈ کھیل رہے ہیں قبل ازیں کھیلے جانے والے رائونڈز میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے، مگر آخری رائونڈ جس میں ان کی نااہلی کا فیصلہ بھی آ سکتا ہے وہ ان کی سیاست پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے اس بارے چند روز بہت اہم ہیں اور ان ہی چند دنوں میں ان کے آئندہ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہو گا۔
42