15

ریلوے درست سمت کی طرف گامزن

پاکستان ریلوے کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہوئے ہیں اور درست سمت کی طرف گامزن ہے تاہم اس میں مزید بہتری کی گنجائش رہتی ہے اور اس کے لیے وزیر ریلوے اپنی ریلوے ٹیم کے ساتھ انقلابی انداز سے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ ریلوے کو مزید فعال اور مضبوط بنایا جائے۔ پاکستان ریلوے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ریلوے کے محکمانہ امور کو آگے بڑھا رہا ہے۔وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی نے ریلوے کی وزارت سنبھالتے ہی اپنی ترجیحات کے بارے میں نہ صرف ریلوے حکام بلکہ میڈیا کے توسط سے عام پبلک کو بھی واضح پیغام پہنچایا۔ انہوں نے ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانا میرا مشن، فریٹ ٹرینوں سے آمدن میں اضافہ، ریلوے زمینوں کو صحیح مصرف میں لا کر آمدن میں اضافہ کرنا، آٹ سورسنگ کے ذریعے ریلوے کے مختلف شعبوں میں بہتری لانا،مسافروں کے لیے سفری سہولیات میں اضافہ، ٹرینوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر صفائی ستھرائی کے نظام میں مزید بہتری لانے، ریلوے تنصیبات سمیت ٹرینوں کی سکیورٹی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، مختلف سیکشنوں پر بند کی گئی ٹرینوں کی مرحلہ وار بحالی اور بنیادی ڈھانچے کو نہ صرف بہتر بلکہ مضبوط بنایا جائیگا۔وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی کے مناسب اقدامات اور بہتر کوارڈینیشن کے ذریعے ٹرین آپریشن اور مسافروں کو دی جانے والی سہولتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ مختلف سیکشنوں پر بند ہونے والی ٹرینیں بحال ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ پہلے مرحلے میں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی نے وزیر توانائی سردار احمدخان لغاری کے ہمراہ ڈی جی خان سے ملتان کے درمیان موسی پاک شٹل ٹرین کا 16 اپریل سے باقاعدہ افتتاح کردیا اوربعد ازاں عوام کے بے حد اصرار پر وزیر ریلوے نے پشاور اور کراچی کے درمیان چلنے والی خوشحال خان خٹک ایکسپریس جو کہ عرصہ 5 سال سے بند تھی اسے بھی 24 اپریل 2025 سے ٹریک پر رواں دواں کر دیا گیا۔جس سے ایم ایل ون کے ساتھ ساتھ ایم ایل ٹو پر بھی ٹرینوں کی آمد و رفت بحال ہو گئی ہے جو کہ بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ قبل ازیں فروری میں لاہور۔ کراچی۔ لاہور کے درمیان چلنے والی شاہ حسین ایکسپریس کو بھی ریلوے حکام نے بحال کر کے مسافروں کے لیے سفری سہولیات میں اضافہ کیا۔وزیر ریلوے نے ریلوے ملازمین اور ان کی فیملیز کو صحت اور معیاری تعلیم کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے ریلوے ہسپتالوں اور سکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت آٹ سورس کرنے کا پلان تیار کیا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ اخبارات میں اشتہار بھی جاری کیا جا چکا ہے اور روڈ شو بھی منعقد کیے جا رہے ہیں تاکہ پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت کو یقینی بنا کر ریلوے کو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہو سکے۔ وزیر ریلوے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ریلوے قومی اثاثہ ہے اس کی نجکاری ہر گز نہیں کریں گے بلکہ ریلوے کے نظام کو اپ گریڈ کیا جا ئے گا۔ جس کے لیے صرف ایک پائیدار شفاف شراکت داری کے ماڈل پر کام شروع کیا جاچکا ہے۔ ریلوے زمینوں کے حوالے سے یہ بات کی جا چکی ہے کہ ریلوے کی تمام ایسی اراضی جہاں پر لوگوں نے ناجائز تجاوزات یا غیر قانونی سہارا لیتے ہوئے قبضے کیے ہوئے ہیں ان کو ہر حالت میں واگزار کروا کر ریلوے کے سسٹم میں شامل کیا جائے گا۔ چونکہ پاکستان ریلوے کے پاس ایسی پرائم لوکیشنز پر زمینیں موجود ہیں جنہیں شفاف اور معیاری بنیادوں پر لیز اٹ کر کے ریلوے کے خزانے میں اربوں روپیہ جمع کیا جا سکتا ہے۔ریلوے کے تمام ڈویژنل آفسز نے ریلوے کی زمینوں کو واگزار کروانے کے لیے کمر کستے ہوئے اینٹی انکروچمنٹ آپریشن شروع کیے ہوئے ہیں جس سے سینکڑوں ایکڑ ریلوے اراضی اب تک قبضہ مافیا سے واگزار کروائی جا چکی ہے۔ جس کی مالیت اربوں روپے میں بنتی ہے۔وزیر ریلوے کی خصوصی ہدایت پر پاکستان ریلوے نے عید الفطر کے موقع پر پانچ سپیشل ٹرینیں چلائیں اور انہیں مقررہ وقت پر ان کی منزلیں مقصود پر پہنچایا گیا اور اس کے علاوہ تمام ٹرینوں کی تمام کلاسز میں عید کے تینوں روز ریلوے کرایوں میں 20 فیصد تک کی کمی کی گئی جس کا بھرپور فائدہ مسافر حضرات نے اٹھایا اور ریلوے کو بھی خاطرخواہ آمدنی حاصل ہوئی۔ پاکستان ریلوے کے پاس اب مسافر اور فریٹ کوچز کی تیاری کے لیے جدید ٹیکنالوجی موجود ہے جس کی مدد سے مقامی سطح پر اپنی ورکشاپس میں فریٹ اور پسنجر کی نئی کوچز تیار کی جا رہی ہے۔ابھی چند روز پہلے ہی وفاقی وزیر ریلوے نے ورکشاپس مغلپورہ میں تیار کی گئیں ہائی کپیسٹی فلیٹ فریٹ ویگنز کا کینٹ ریلوے اسٹیشن پر افتتاح کیا اور انہیں ریلوے کے بیڑے میں شامل کیا گیا۔ جبکہ کیرج فیکٹری اسلام آباد میں جدیدسہولیات سے مزئین پسنجر کوچز تیار کی جا رہی ہیں تاکہ مسافروں کو بہترین سفری سہولتیں سے آراستہ مسافر کوچز دستیاب ہو سکیں اور ان کا سفر پرسکون اور آرام دے ہو سکے۔پاکستان ریلوے نے مالی سال 2024-25کے ابتدائی 10ماہ میں ریکارڈ 75ارب آمدنی حاصل کی ہے۔ جس میں فریٹ سیکٹر سے 40ارب روپے، مسافر ٹرینوں سے 26 ارب روپے جبکہ ریلوے زمینوں اور دیگر ذرائع سے 9 ارب روپے کمائے جا چکے ہیں. واضح رہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ریلوے کو رواں مالی سال میں 109ارب روپے آمدنی حاصل کرنیکا ٹارگٹ ملا ہوا ہے جس کے لیے پاکستان ریلوے نے تمام شعبوں میں ترقی کے عمل کو تیز کیا ہوا ہے تاکہ پچھلے مالی سال کی حاصل کردہ آمدنی 88ارب کا اپنا ہی ہدف نہ صرف توڑا جائے بلکہ حکومتی ٹارگٹ کو بھی مکمل کرنیکی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ آمدنی اور ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ کے باوجود آپریشنل اور فیول اخراجات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے ۔ پاکستان ریلوے انٹر ریجنل کنیکٹیویٹی کے منصوبوں کو اہمیت دے رہا ہے اور ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے بیرون ممالک سے وفود پاکستان آ بھی رہے ہیں اور پاکستان سے بیرون ملک جا بھی رہے ہیں تاکہ ان پر تیزی سے عمل درآمد ہو سکے۔ اس کے علاوہ تھر کول منصوبہ سندھ حکومت اور پاکستان ریلوے دونوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے جس کے لیے پاکستان ریلوے ایک نئی لائن بچھانے کے لیے تیزی سے کام کر رہا ہے تاکہ منصوبہ مقررہ وقت میں مکمل کر کے کول کی ٹرانسپورٹیشن شروع کرسکے۔اس منصوبے کی تکمیل سے سندھ حکومت اور ریلوے دونوں کو مالی فائدہ حاصل ہو گا۔ وزیر ریلوے ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں کے دورے کر رہے ہیں تاکہ مسافروں کو دی جانے والی سہولتوں اور صفائی ستھرائی کے معیار کو عالمی معیار کے مطابق کیا جاسکے۔ صوبائی فوڈ اتھارٹیوں کو ریلوے اسٹیشنوں پر بغیر اجازت کھانے پینے کا معیار چیک کرنے کی اجازت ہوگی۔ ریلوے اسٹیشنوں پر صفائی ستھرائی کے انتظامات ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کی ذمہ داری کمپنی کو دے دی گئی۔ مرحلہ وار تمام اسٹیشنوں کی صفائی آٹ سورس کی جائے گی۔ ابتدائی مرحلہ میں لاہور، فیصل آباد، گجرانوالہ، خانیوال اور ملتان کے ریلوے اسٹیشن بھی کمپنی کے حوالے کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سندھ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے بھی بات کے لیے افسران کو ٹاسک دے دیا ہے۔ اس اقدام سے ریلوے سے سفر کرنے والے مسافروں کو بہتر اور خوشگوار ماحول میسر آئے گا۔ پہلی دفعہ وزیر ریلوے کے احکامات کی روشنی میں پاکستان ریلویز نے تمام لگژری سیلونز بشمول وزیر اعظم پاکستان کے استعمال میں رکھی گئی سیلون کو بھی مسافروں کی بکنگ کے لیے پیش کر دیا ہے۔ اس سے قبل کوئی بھی مسافر وزیراعظم پاکستان، وزیر ریلوے، چیئرمین، سی ای او اور آئی جی کے سیلون کی بکنگ نہیں کروا سکتے تھے۔ پاکستان ریلوے نے لگژری سلونز کے ڈسکانٹ کرایوں کا باقاعدہ شیڈول جاری کرتے ہوئے وزیراعظم سیلون کا کراچی سے لاہور تک کا کرایہ 6 لاکھ روپے اور لاہور سے اسلام آباد کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ روپے رکھا ہے جبکہ دیگر سیلونز کا کرایہ مسافر کے لیے کراچی سے لاہور 4لاکھ روپے اور لاہور سے اسلام آباد کا کرایہ ایک لاکھ روپے رکھا گیا ہے۔ہر سیلون میں 10افرادسفر کر سکیں گے۔ یقینا یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے اقدامات کی بدولت ریلوے ٹرینوں کی پنکچویلٹی میں نہ صرف بہتری آئی ہے بلکہ ریلوے کے ذریعے سفر کرنیوالے مسافروں میں بھی بہت حد تک اضافہ ہوا۔ پاکستان ریلوے جس جستجو اور ترقی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اس سے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی حاصل کر سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں