37

ریٹائرڈ ملازمین اثاثہ ہیں

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
کوئی بھی ملازم جب اپنی ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اس کوتریلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات آنکھیں آبدیدہ ہوتی ہیں بلکہ اعصابی طور پر کمزوری کی صورت میں بندہ جذبات سے مغلوب ہوکر کھل کھلا کر رو بھی لیتا ہے۔ ابھی تک میں نے وین تاحال ایسی صورتحال میں نہیں سنے ہیں۔ ویسے میری ریٹائرمنٹ بھی قریب ہے اور میں جب بھی اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو سیچوایشن کو کنٹرول کرنے کے لئے دل کو کہتا ہوں اتنی بھی قریب نہیں اور پھر یہ سوچ کر سوچنا چھوڑ دیتا ہوں اور کسی نہ کسی پنگے میں پڑ کر آنے والے وقتوں کی اونچ نیچ کے بارے میں بے فکر ہوجاتا ہوں ویسے بھی ہمیشہ مثبت سوچ رکھنی چاہیئے اور مستقبل کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے آئیے منصوبہ بندی کا پیغام عام کریں تاکہ سب سے پہلے آبادی توکم ہو اور آبادی کم ہونے کی صورت میں ریٹائرلوگوں کے مسئلے مسائل ویسے ہی کم ہو جائیں گے
زندگی مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی قبر میں پہنچ کر لمبی تان کے سوجاتی ہے اور وہاں نہ کچن چلانے کی فکر نہ شریکے کی باتوں کا خوف اور نہ ہی کل کیا ہوگا ایسے خیالات کا خدشہ۔ خیر اگلے جہاں کے اپنے مسئلے مسائل ہیں جو کہ دنیا کے معاملات سے متصل ہیں۔ آج کے معاملات پر غوروفکر کی اشد ضرورت ہے اور معاملات کی ہانڈی کو عبادات کا تڑکا لگا کر زندگی کو انتہائی خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ سردست بات ریٹائرمنٹ کی ہے اور اس کی فکر اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج کا کام کل پر ڈالنا دانائی ہے اور نہ حکمت۔ سالہا سال سے سرکارے دربارے رہنے والے لوگوں کی زندگی کافی حد تک پرتعیش ہوتی ہے۔ پانی کا گلاس بھی اپنے ہاتھوں سے پینا بہت مشکل لگتا ہے اس کے لئے گھنٹی بجا کر نائب قاصد کو بلانا پڑتا ہے۔ گاڑی پر سوار ہونا بھی انتہائی مشکل کام ہے گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لئے کم از کم ایک گن مین بہت ضروری ہے۔ اپنی انا کی تسکین کے لئے پانچ سات سائلوں کو بے عزت کرنا صحت کے لئے ویسے ضروری ہوتا ہے۔ یہ تو موٹے موٹے کام ہیں ویسے معمولات شب و روز کی فہرست طویل ہے۔ ایسے ماحول میں اچانک ریٹائرمنٹ کا بم گر جائے تو آج کی مہنگائی والے بم کی شدت محسوس کرنے والے اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سب سے پہلا کام پنشن کے کاغذات کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ فوری نوعیت کا کام ہوتا ہے تاکہ آمدن کا پہیہ رواں دواں رہے۔ اس سلسلے میں سامنا پنشن کلرک سے ہوتا ہے اور اس نے ماضی کے اپنے اور اپنی کلرک کلاس کے حساب چکانے ہوتے ہیں ویسے بھی وہ حساب کتاب کاماہر ہوتا ہے اور اس کا تو سکیل بھی اتنا بڑا نہیں ہے جبکہ بشری تقاضوں کے تحت اس کی ضروریات کی فہرست بہت طویل ہوتی ہے اوپر سے پنشن کی ساری مراعات اکٹھی کی جائیں تو بات لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے اور لاکھ پتی بندہ ایسے تھوڑا بن جاتا ہے۔ ابھی پنشن کو کئی ہاتھوں سے گزرنا ہے اور ہر کسی نے ہاتھ دکھانا ہے بلکہ کچھ تو ہاتھ کر جائیں گے اور ایسی صورتحال میں سیدھے سادے ریٹائرڈ لوگ تو ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ نہ پی اے نہ چپڑاسی نہ ڈرائیور اور نہ گاڑی۔ پہلے تین کام تو آجا کے بیوی نے ہی کرنا ہوتے ہیں۔ اب سواری آپ نے کس پر کرنی ہے یہ وقت بتائے گا۔ بچے اور بیوی دو تین بعد جواب دے جائینگے ویسے چکرتو دفتر کا بھی لگایا جا سکتا ہے اور وہاں بھی ہر کوئی چکر دینے کے موڈ میں ہوتا ہے اس سلسلے میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا انہوں نے چکر دینا بھی اپنے ریٹائرڈ صاحب بہادر سے ہی سیکھا ہوتا ہے۔ یوں ہم سڑکوں پر اور دوست احباب خوش کہ اب ہمہ یاراں دوزخ کافلسفہ تو اپنے خدوخال کے ساتھ نمایاں ہوگیا۔ سروس کی کچی یاری کی تند ٹوٹنے کے ساتھ ہی بندہ ٹکا ٹوکری ہو جاتا ہے۔ نہ ٹکے کا نذرانہ اور نہ مٹھائی کی ٹوکری۔
جب بھی ریٹائرڈ اور ریٹائرمنٹ کے قریب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو مشوروں کا انبار لگ جاتا ہے اور اس انبار کے نیچے حاضر سروس لوگ دب جاتے ہیں اور دب جانے والے لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما رک جاتی ہے۔ سوچ بچار کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ یوں ریٹائرڈ لوگوں پر دفاتر کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ بندے بندے میں فرق ہوتا ہے ہر وقت کرسیوں پر ایک جیسے نہیں بیٹھتے ہیں۔ کھلے دل اور کھلے دماغ والوں کے دروازے سب کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ سوچ کی پختگی اور مزاج کی نفاست سلیقہ شعاری اور وضعداری کا سبب بنتی ہے۔ ماحول میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے مشورے کو عملی شکل دینے کے بارے میں سنجیدگی سے غوروفکر شروع ہوجاتا ہے۔ اکٹھے بیٹھ کر غوروفکر کرنے کو مشاورت کہتے ہیں اور باہم صلاح مشورے سے زندگی کی دقیق گتھیاں سلجھائی جا سکتی ہیں۔ چند یوم قبل چند افسران نے ان موضوعات پر سوچ بچار کیا اورسب “متفق علیہ” ہو گئے کہ ہر دفتر میں ایک کمرہ مختص کردینا چاہیئے جہاں ایسے افراد جب چاہیں وہاں آکر بیٹھیں ۔
ادارے ان سے مکمل تعاون کریں اور وہ بھی اپنے تجربات ومشاہدات کی بنا پر اداروں کے لئے ریسرچ پروپوزل دیں اور سربراہان پالیسی سازی میں ان سے استفادہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس تجویز کی سڑک دورویہ ہے۔ رویوں پر بھی دو رویہ سڑکوں کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ گھر کے کھچے کھچے ماحول سے تنگ بندہ چند لمحے ایسی جگہوں پر بیٹھ کر بیوی کے طعنوں اور بیٹوں اور بہوں کی کل کل سے مکمل سکون حاصل کر سکتا ہے۔ اپنے روز مرہ کے مسئلے مسائل اپنے ادارے کے تعاون سے حل کر سکتا ہے۔ جن اداروں نے اپنے ویلفیئر کے اداروں کو مضبوط کیا ہے ان کے حاضر اور ریٹائرڈ ملازمین کی اپنے ادارے سے وابستگی دیدنی ہوتی ہے۔ کسی ملازم کی آنکھ بھی آجائے تو ادارہ دوائی لے کر دروازے پر کھڑا ہوتا ہے۔ شاید ایسا تاحال پاکستان میں صرف پاکستان آرمی میں ہے جہاں تک سول اداروں کا تعلق ہے وہاں باتوں سے آگے بات نہیں بڑھتی ہے۔ اب چونکہ بات چل نکلی ہے اور ویسے بھی بات سے بات نکلتی ہے۔ ریٹائرمنٹ یا ناگہانی موت کی صورت میں پیکیج ٹھیک ہیں بات اونر شپ کی ہے اور اس حد تک کوئی زیادہ بجٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اونر شپ اور مینجمنٹ کو بہتر کر لیا جائے تو ملازم بھائیوں کی ریٹائرڈ زندگی پرسکون بنائی جاسکتی ہے۔ پنشن کا سارا نظام آٹومیٹ کردیا جائے۔ بینیولینٹ فنڈ کا سسٹم ایپ کے تابع کردیا جائے۔ آرمی کے طرز پر ایک ویلفیئر ونگ بنا دیا جائے جو خالصتا ریٹائرڈ ملازمین کے معاملات دیکھے۔ ہر دفتر میں ایک بار کونسل کی طرز پر ایک ہال تعمیر کیا جائے جہاں ایسے افراد آکر اپنے پرانے یار بیلیوں سے کھلی گپ شپ لگا سکیں۔ ان کے نجی معاملات میں ویلفیئر ونگ ان کی مکمل مدد کرے۔ پالیسی سازی میں ان حضرات کے ان پٹ کو مدنظر رکھا جائے۔ سربراہان ادارہ جات کو پابند بنایا جائے کہ ریٹائرڈ لوگوں کو ان کی ضرورت کے تحت ملاقات کا وقت دیا جائے۔ ان سارے کاموں پر کوئی لمبی چوڑی انویسٹمنٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف دل کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں