15

زمین پر سب کا حق ہے

جمعہ المبارک کا سورج جونہی طلوع ہوتا ہے تو مجھے جمعہ خان یاد آجاتا ہے۔ ویسے تو انسان ساری رات لمبی تان کر سوتا ہے اور رات کے لمحات میں طرح طرح کے خواب دیکھتا ہے اور صبح ہوتے ہی فضائے بسیط میں اڑنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ دماغ بھی کیا خوبصورت فیکٹری ہے جہاں عرش سے فرش تک سے متعلقہ خیالات پراسیس ہوتے ہیں اور پھر ان پر عملدرآمد کا مرحلہ آتا ہے۔ اس موقعہ پر دل اور دماغ کی ایک نورا کشتی بھی ہوتی ہے اور اس کشتی کا فیصلہ شعور کرتا ہے اب یہ شعور پر منحصر ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے نبھانا جانتا بھی ہے یا کہ اس کو بھی ڈنڈی مارنا پڑتی ہے۔ ویسے تو فطری طور پر دنیا کے معاملات چلانے میں ڈنڈا چلانے کا ٹھیک ٹھاک عمل دخل ہے۔ حالانکہ کہنے والے کہتے رہتے ہیں کہ دخل اندازی برداشت نہیں کی جائیگی اس کے باوجود قوت برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے تب جا کر کاشت کے بعد فصل برداشت کرنا پڑتی ہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو بیجو گے سو کاٹو گے۔ جیبیں اور گلے کاٹنے سے تو ہزارہا درجے بہتر ہے کہ انسان ہوش کے ناخن لے اور ناخن کا استعمال محض جسم پر خارش کرنے تک محدود کردے۔ ان سارے کاموں کا تعلق سوچ کے تانے بانے بننے سے ہے۔ آج کل بین الاقوامی طور پر بھی ورائٹی میں تانے بانے بنے جارہے ہیں اور ہم سب بغور دیکھ رہے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ہم میں سے جو زیادہ بے چین اور زودرنج روحیں ہیں وہ تو یہ بھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ اونٹ بیٹھتا بھی ہے یا کہ نہیں۔ تاہم مجبور تو پھر مجبور ہوتا ہے ان کا عمل کی دنیا سے کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق نہیں ہوتا ہے۔ تعلق داری سے بڑھ کر کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں ہوتی ہیاور ایسی سرمایہ کاری میں آگے بڑھ کر کھیلنا پڑھتا ہے۔ بیک وقت گیند اور وکٹ دونوں پر گہری نظر رکھناپڑتی ہے تب جا کر چوکے چھکے لگانے میں انسان کامیاب ہوتا ہے۔ بصیرت، فہم وفراست اور حکمت ودانائی کی بہت ضرورت ہے کیونکہ آپ کا مخالف بھی گھر سے کھیلنے آیا ہے اس کی ریاضت کے سفر کی بھی ایک تاریخ ہے۔ آج کل ایک یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ ہم تاریخ کو بھول گئے ہیں اور بقول کسی مفکر کے۔ جو قوم اپنے ماضی سے منقطع ہوجاتی ہے وہ ٹکریں مارتی ہے یا پھر در بدر ٹھوکریں کھاتی ہے ہمارے ہاں کچھ نام نہاد محقق یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ تاریخ پاکستان پڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔لگتا ہے وہ تاریخ مذکور میں اپنا ذکر تلاش کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ کاش وہ تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کی کوشش کرتے لیکن نام پیدا کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اسی لئے بانی پاکستان آخری دنوں میں بار بار کام کام اور کام کی بات کرتے رہے۔ درحقیقت یہی کام کی بات ہے۔ ہم ہیں کہ کام کرنے کی بجائے کام کرنے والوں کے ساتھ حسد کرتے کرتے دن پورا کردیتے ہیں اور رات کے اوائل اوقات میں ٹاک شوز میں بول بول کر قوم کو کنفیوز کرنے کی حتی المقدور پوری کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارا بھی نام رہے۔ کاش کوئی سمجھائے ان کو۔ نام اور کام ہم قافیہ ہیں اور قافیہ کے استعمال سے ہی شعر وادب تخلیق ہوتا ہے۔ اچھے شعر پر مدتوں سر دھنے جاتے ہیں اورسننے والے ایسے رقت آمیز لمحوں میں بے ساختگی اور وارفتگی سے شاعر کا نام پوچھتے ہیں۔ نام تو پھر نام ہے ایسے لوگ ہی امر ہو جاتے ہیں قائد اعظم زندہ باد( مرن توں پہلاں جو مر گئے باہو رب انہاں ای پایا ہو)جمعہ خان آج کل مجھے اکثر ملتا رہتا ہے اور وہ اکثر مسائل کا شکار رہتا ہے۔ یا تو واقعی اس کے مسائل کی فہرست طویل ہے یا پھر وہ اپنے آپ کو مسائل زدہ سمجھتا ہے۔ زندگی میں سمجھنے سمجھانے کا بھی بڑا کردار ہے میں اس کو بہت سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ ہے کہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا ۔ وہ اپنے بھائی کے اس لئے خلاف ہے کہ اس کے بھائی نے اس کی زمین پر قبضہ کررکھا ہے۔ یقییننا قبضہ گروپوں نے شریف اور سادہ لوح لوگوں کا جینا محال کردیا ہے۔ میں بھی اپنے آپ کو ایک بہترین منصوبہ ساز شخص سمجھتا ہوں ویسے تو اپنے آپ کو کچھ سمجھنے والے کچھ بھی نہیں ہوتے ہیں۔ میں نے ایک دن دونوں بھائیوں کو بلا کر بنام وغیرہ میں کھڑا کردیا اور جمعے خان کو قد کاٹھ کے اعتبار سے بڑا سمجھ کر ان دونوں بھائیوں کو بھائیوں کے آپس کے تعلقات کی پوری سائنس سمجھانے کی کوشش کی اور جمعہ خان کو ان کے باپ کی جگہ لا کھڑا کیا باپ کے طور پر جمعے خان نے جب اپنے آپ کو سوچنے پر تیار کیا پھر تو ان دونوں کو زمین بھول گئی اور وہ ہک مک ہو گئے۔ اس روز مجھے ابن خلدون کے فلسفہ عصبیت کی پوری سمجھ لگی تھی۔ خیر میرے انصاف کرنے کی سب نے مل کر خوب تعریف کی اور یوں مر گیا سانپ اور بچ گئی لٹھ۔ اب اس لٹھ سے سب قبضہ گروپوں کو ہانکنے کی بہت ضرورت ہے تاہم ان قبضہ گروپوں کی آنکھوں پر “کھوپے” باندھنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنے دل ودماغ کی دنیا میں شناخت پریڈ کرکے الٹا کوتوال کو نہ ڈانٹنا شروع کردیں۔ جمعہ خان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اس کا کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے بس وہ جلدی پریشان ہو جاتا ہے اور اس کی شخصیت یہ خوبصورتی ہے کہ وہ جلدی خوش بھی ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ اس کا ایک عزیز بیمار ہوگیا اور وہ اس سلسلے میں اس کو ساتھ لے کر ہسپتال چلا گیا۔ ڈاکٹر نے اس کو لائن میں لگا دیا جس پر جمعہ مذکور سیخ پا ہو گیا اور اس نے میرے پاس آکر دم لیا اور مجھے ہر مرض کا علاج سمجھ کر کہا کہ حضور آپ کے ہوتے ہوئے سارا کچھ یہ کیا ہے۔ مجھے بھی سانپ سونگھ گیا کہ یہ بندہ مجھے سمجھتا کیا ہے۔ ہاں ہاں وہ یہی سمجھتا ہے کہ ہم ٹھہرے ڈپٹی کمشنر اور پبلک سروس ڈلیوری کے ضامن۔ ویسے تو یہ سچ ہی کہتا ہے۔ میں نے ہس ایم ایس کو ایک کال کر کے بتایا کہ آج جمعے کا دن ہے اور جمعہ خان وہ شخص ہے جو اللہ کا بندہ ہے ابھی تک یہ میری طرف دیکھ رہا ہے اگر اس نے اوپر دیکھنا شروع کردیا تو پھر تخت اچھالے جائیں گے۔ ایم ایس تو بالکل ہی ڈر گیا اور جمعے خان کا عزیز شفا یاب ہوگیا یوں اس کے چہرے پر خوشی اور وہ خوشی بھی گلاب کے پھول کی طرح تروتازہ اور لطیف۔ اس کے دل سے ناچیز کے لئے بے ساختہ دعائیں نکلیں اور ہم بھی خوش اور خلق خدا بھی خوش۔ ان ساری باتوں کے باوجود اس کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور وہ ہے زمین کا حصول۔ اس کا خیال ہے کہ خدا کی زمین پر سب کا حق ہے اور اس حق کے حصول کے لئے وہ کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ ابھی تک اس پر ایک حقیقت آشکار نہیں ہو سکی ہے کہ زمین اور زمین پر قابض ایک کال کی مار نہیں ہوتا ہے۔ زمین کے معاملے پر تو بہت کچھ ہوجاتا ہے۔ گالی گلوچ، ہاتھا پائی، فائرنگ وائرنگ، ست اکونجا، خون خرابہ، پرچے ورچے اور پھر عدالتی چارہ جوئی۔ لمبا بلکہ بہت ہی لمبا کام اور اس کام میں کامیاب ہونے کے لئے زمین کے کاغذ سیدھے کرنا پڑتے ہیں اور اس کام کے لئے سب سے پہلے پٹواری کو سیدھا کرنا پڑتا ہے اور یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا جمعے خان سمجھتا ہے۔ دھمکی اور وہ بھی انقلاب کی دھمکی۔ زمین کے کاغذ ہوش سے بنتے ہیں جوش سے نہیں۔ میں آج کل یہ بات متذکرہ بالا شخص کو سمجھانے کی پوری کوشش کررہا ہوں اور بذریعہ چھانٹ اس کے ثبوت ملکیت اکٹھے کرنے کی ہم سب مل کر کوشش کررہے ہیں دعا ہے اللہ تعالی ہم سب کو جمعے خان کو زمیندار ثابت کرنے میں کامیاب فرمائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں