23

ستھرا پنجاب کہانی

پنجاب کی دھرتی اور لوک کہانی۔ شعرو سخن کی دنیا میں ون پونی کہانیاں۔ ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، یوسف زلیخا اور بے شمار۔ کہنے کو یہ یقینا کہانیاں ہیں لیکن ان میں پنجاب کو اس کی اپنی اصلی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ثقافت، کلچر، میدان، پہاڑ، کھیت کھلیان، لش فصلیں، میلے ٹھیلے، لوک گیت، گبھرو جوان، دھی رانی، مجھاں گاواں، رسماں، طبلے سرنگیاں، گھوڑے، جاگیردار، غریب کسان، پگ ڈنڈیاں، ریل گڈی، مرنا پرنا تے وین شین، پٹکے، پگاں، ٹوپیاں، لاچے، جھگے، جگے، ڈیرے، چوہدری، بھین بھرا، پیو دی پگ، کھیڈ تماشہ تے تماشیاں تے رنگ چ بھنگ پان والے خرکارے۔ ساڈا ہسدا وسدا پنجاب ان کہانیوں میں اچھی طرح دیکھا جا سکتا ہے اور اس ساری گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کہانی محض کہانی نہیں ہوتی اس میں کردار وہی ہوتے ہیں جو آپ کو اپنے ارد گرد گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کوئی نقاد بھرپور انداز میں متذکرہ بالا کہانیوں کو محض افسانے قرار نہیں دے سکتا ہے۔ ہر کہانی چلتی بھی نہیں ہے۔ ویسے ہمارے سول سروس کے بے شمار لوگوں نے کتابیں تحریر کی ہیں لیکن شہاب نامہ اپنی نوعیت کی اس لئے مختلف کتاب ہے کہ اس کے سارے کردار آج بھی ہم سب کے ساتھ موجود ہیں اور وہی کچھ کررہے ہیں جو اس وقت ہوتا تھا مطالعہ کا شوقین اس کتاب کو پڑھنا شروع کرتا ہے اور پھر اس کو مکمل کرکے ہی دم لیتا ہے۔ شاید اس میں دم خم اس لئے ہے کہ یہ معاشرے کے سامنے عملی زندگی کی اصل کہانی پیش کرتا ہے۔ اصل کہانی بتانا ہی ہم سب کی ذمہ داری ہے تاکہ سننے والے سبق سیکھیں، کام کرنے والے استفادہ کریں اور سوچ بچار کرنے والے اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ تبدیلی تبدیلی اور تبدیلی کا نعرہ محض نعرہ ہوتا ہے اور نعروں سے اب قوم کو مشتعل تو کیا جا سکتا ہے، کنفیوز کیا جا سکتا ہے، بدگمان کیا جا سکتا ہے اور ان کے درمیان اشتعال پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی خیر کی کہانی کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ خیر یہ ہے کہ کہانی کا ایک اچھا پلاٹ تیار کیا جائے اور پھر اس کہانی کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے موثر اور معقول کردار تیار کئے جائیں تب جا کر کہانی بنتی ہے اور آنے والی نسلیں اس کہانی کو سن سن کر مزے لیتی ہیں اور سبق حاصل کرتی ہیں۔گذشتہ دنوں فورٹریس سٹیڈیم میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس کا موضوع تھا ان ویلنگ پروگرام اور نیو سینیٹیشن فلیٹ۔ اس تقریب میں مہمان خصوصی محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلی پنجاب تھیں۔ اس تقریب کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب نے ستھرا پنجاب کہانی کو آگے بڑھانے کی سنجیدہ شعوری کوشش کی ہے۔ مزے کی بات ہے کہ مذکورہ تقریب میں ایک داستان گو نے بھی ستھرا پنجاب کہانی پڑھ کر سنائی اور داستان گوئی کے سارے تقاضے پورے کئے۔ ستھرا پنجاب کوئی قصہ پارینہ نہیں ہے یہ آج کی کہانی ہے اور ہم سب نے اس کو غور سے سننا ہے اور اس کہانی کو آگے بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے اور پھر اس کہانی کو اپنے بچوں کو بھی سنانا ہے اور اس کہانی کے تسلسل کو آگے بڑھانے کی خواہش آنے والی نسل کو بھی بتانی ہے تاکہ کہانی اپنے کلائمکس کو پہنچ جائے۔ ہمارے ہاں شہروں میں بہر حال سیوریج سسٹم تھے یہ علیحدہ بحث ہے کہ کچھ نئے بنائے گئے تھے اور کچھ اپنی طبی عمر پوری کرکے انتہائی بھیانک شکل پیش کررہے تھے۔ دیہات “چپ ای بھلی ہے”۔ 70 80کی دہائی سے پہلے دیہاتی بیچارہ پگڈنڈیوں پر چل کر شہر آتا تھا اور پھر وہیں کا ہو جانے کی کوشش کرتا تھا۔ بچے پڑھانا ہر ماں باپ کی خواہش ہے۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بچے کرائم کی دنیا میں جانے کو ترجیح دیتے تھے اور کچھ دوراندیش مائیں اپنے زیور بیچ کر اپنے آنکھوں کے تاروں کو اپنی آنکھوں سے دور شہر بھیج کر بڑے بڑے خواب دیکھتی تھیں اور سارے خواب کہاں پورے ہوتے ہیں۔ پینڈو رفع حاجت کے سلسلے میں کھیت کھلیانوں میں جاتا تھا اور حشرات الارض اور چوروں ڈاکوں سے مکمل طور پر غیر محفوظ ہوتا تھا۔ سولنگ نالیاں ضرور بنائے گئے لیکن بغیر کسی باقاعدہ منصوبہ بندی سے۔ کہیں ڈسپوزل سنٹر نہیں تھے کہیں سیوریج سٹاف نہیں تھا اور کہیں اس سسٹم کو چلانے کا کوئی پروگرام بھی نہیں تھا۔ یہ تھی ہماری کہانی جو کہ مذکورہ داستان گو نے ہم سب کو سنائی۔ پھر محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلی پنجاب نے اس کہانی میں اپنا کردار ڈویلپ کیا اور یوں کہانی نے ایک نیا موڑ لیا۔ پھر تو صفائی ستھرائی کی اہمیت کے بارے میں شعوری احساس بیدار کیا گیا اور عوام اور اداروں کے درمیان رابطے کا باقاعدہ نظام وضع کیا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں بے روزگاروں کو میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا گیا۔ ان کی حاضری کو بائیو میٹرک کی بدولت یقینی بنایا گیا۔ مطلوبہ مشینری پرچیز کی گئی اور مزید یہ کہ مانیٹرنگ کا الیکٹرانک سسٹم۔ بیوروکریسی کو روایتی موڈ سے نکال کر “کے پی آئی” سسٹم کے ذریعے سے جوابدہ بنایا گیا۔ سونے پہ سہاگہ ان کی باگ ڈور زاہد اختر زمان چیف سیکریٹری کے ہاتھ میں۔ ان کے ہاں درد اور فکر بلکہ فکر انگیز گفتگو۔ ایسی گفتگو ہر ذی فہم اور ذی شعور کو بھی سوچنے پر اور کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ ستھرا پنجاب کہانی میں ذیشان رفیق وزیر بلدیات اور میاں شکیل احمد سیکرٹری بلدیات کے کرداروں کا بھی جواب نہیں۔ بہرحال محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب نے پنجاب کی دھی رانی ہونے کا حق ادا کردیا ہے اور پنجاب کہانی میں مزید رنگ بھرنے کے لئے برسر پیکار ہیں۔ قائد اعظم کا فرمان کام کام اور کام۔ محترمہ مذکور قائد کے اس فرمان کی بھی عملی تفسیر پیش کررہی ہیں۔ اے میرے ہم وطنو. باتیں بڑی ہو گئی ہیں اب ہم مل کر وزیر اعلی پنجاب کے شانہ بشانہ کام کر کے پنجاب کہانی بلکہ پاکستان کہانی کو کلائمکس پر لے جانے کے لئے دن رات ایک کردیں اسی میں ہماری بہتری ہے۔
اب بجھ چکی ہے کہنہ قیادت کی روشنی
تازہ لہو کا جوش فراواں قبول کر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں