سید عبدالقادر گیلانی گیارہویں والے پیر کے حوالے سے عوام الناس میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے ماننے والوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہے اور ان کو ماننے کے طریقے کے ناقدین کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ شاید ہر دو طبقات نے ان کو سطحی طور پر لیا ہے۔ ان کا علمی قد کاٹھ اور روحانی مقام ومرتبہ جاننے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ تاہم جس نے ان کی شخصیت اور ان کی خدمات کا مطالعہ کیا ہے انہوں نے تو بہت کچھ کہا ہے اور یہ کہنے والے اپنے اپنے دور کے جید علما اور شہرہ آفاق بزرگان دین تھے۔ جان کر پہچان ہوتی ہے۔ قریب آنے سے حق الیقین کی منزل طے ہوتی ہے اور منزل تک لے جانے والوں کی دنیا یادیں مناتی ہے اور پھر ہر قمری مہینے کی گیارہویں کو میٹھی کھیر گھر گھر پکائی جاتی ہے اور ہر کس و ناکس کا منہ میٹھا کروایا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب دیہاتوں میں مذکورہ تاریخ کو دودھ کی شارٹیج ہو جاتی تھی اور دودھ بھی خالص اور گمان کیا جاتا تھا کہ دودھ بیچ کر بندہ دودھ سے محروم ہو جاتا ہے اور دودھ کو اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت شمار کیا جاتا تھا۔ بلکہ کچھ لوگ تو دودھ بیچنے کو گناہ سمجھتے تھے اورگیارہویں پر دودھ اور چاول کی کھیر نہ پکانا بہت ہی برا سمجھا جاتا تھا۔ پھر حالات نے کروٹ لی اور دودھ اور پانی اکٹھے ہو گئے اور گیارہویں کی کھیر پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں اور کھیر بانٹنے والے بھی اس کو محض رسم سمجھنے لگ گئے۔ رسومات کے حق اور مخالفت میں بھی دلائل کے انبار لگ گئے۔ مناظرے اور شدت جذبات میں مناظر پتہ نہیں کیا کیا کہہ گئے۔ خیرخیرات کا تصور غائب۔ نذر نیاز کی بحث و تمحیص اور رولا ہی رولا بلکہ قصے کہانیاں اور عبدالقادر گیلانی اور ان کی تعلیمات کتابوں کی نذر اور کتابیں شیلفوں میں اور ہم ہوئے بیگانے۔ کاش ہم صوفیائے کرام کی تعلیمات کا آنکھیں کھول کر مطالعہ کر لیتے اور ان کے طریقہ کار کو کھلے دل سے سمجھنے کی کوشش کر لیتے تو ہماری آنکھیں کھل جاتیں کہ عبدالقادر گیلانی کتنے بڑے عالم، فقیہہ، مفتی، مجتہد، صوفی،محقق، مجدد، مبلغ، موحد، شارح قرآن وسنت اور ولی اللہ تھے۔ آپ 17مارچ 1078 میں ایران کے صوبہ گیلان میں پیدا ہوئے اور 14فروری 1166 بغداد میں وصال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔ آپ حسنی حسینی سید (نجیب الطرفین) تھے۔ آپ کے والد کا اسم گرامی ابو صالح موسیٰ جنگی دوست اور والدہ کا نام سیدہ فاطمہ تھا۔ آپ کو اعلی تعلیم کے لئے بغداد بھیجا گیا تھا۔ اس وقت بغداد میں بے شمار مدارس تھے جہاں قرآن، حدیث، فقہ،فلسفہ،منطق، فلکیات، نجوم، طب اور دیگر علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ تربیت کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور یہی درسگاہ بچے کی مستقبل کی راہیں متعین کردیتی ہے۔ ان کی ماں کی تربیت کا ایسا اثر تھا کہ سچ بول کر انہوں نے دوران سفربغداد ڈاکوں کو راہ راست پر آنے پر مجبور کردیا تھا اور پھر ولی کا چور کو قطب بنانا ایک بیانیہ بن گیا تھا۔ آپ کی دعائوں اور دواوں سے لوگوں کے بگڑے کام ہو جاتے تھے۔ جس کو شاید تمثیلی انداز میں ڈوبی بیڑی کا تر جانا کہتے ہیں۔ تاہم ماننے والے تو”ڈبی بیڑی تر جائیگی” اس واقعے کو سچا مانتے ہیں اور ناقدین افسانہ۔ اللہ اعلم۔ اس کے باوجود یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان کی علمی اور روحانی استعداد کی بدولت بغداد میں بڑا کام ہوا تھا اور جو بچہ علم حاصل کرنے بغداد گیا تھا وہ پیر بغداد کے حوالے سے بغداد کی پہچان بن گیا۔ آپ بیشمار کتب کے مصنف ہیں۔ جن میں غنیہ الطالبین، فتوح الغیب، الفتح الربانی الفیض الربانی اور ملفوظات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ کی درسگاہ اس دور کی معروف درسگاہ تھی۔ آپ باقاعدہ تبلیغ کرتے تھے اور آپ کی تقریر سننے کے لئے دوردراز سے لوگ آتے تھے۔ ہزاروں کے مجمع میں آپ گفتگو فرماتے تھے اور سب کو راغب الی اللہ ہونے پر آمادہ کردیتے تھے۔ پیر،شیخ،مرشد،عالم اور مبلغ کا ایک ہی کام ہے کہ وہ عبد کو معبود سے ملانے والے راستے پر ڈال دے اور پھر اس پر نظر رکھے تاکہ وہ کہیں ادھر ادھر نہ چلا جائے۔ تمام راستے اور وہ بھی ایک ہی طرف۔ بزرگان دین کے ہاں دوئی کا کوئی تصور نہیں ہوتا ہے۔ ان کو ہر طرف ایک ہی ایک نظر آتا ہے تب ہی تو جا کر نظریہ ہمہ اوست اور توحید وجودی منظر عام پر آتا ہے اور توحید کا پیغام ہر خاص وعام تک پہنچا کر مومن موحد ہونے کا حق ادا کردیا جاتا ہے اور شرک وکفر کی بیخ کنی کے لئے حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔ عبد القادر گیلانی کا قول ہے کہ جو اللہ تعالی کے علاوہ کسی سے خوف کھاتا ہے وہ بھی شرک کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ تو لازم ہے کہ ہم نہ صرف تسلیم کریں بلکہ ہمارے قول وفعل سے ثابت ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالی اپنی ذات، صفات اور صفات کے تقاضوں میں بے مثل اور بے نظیر ہے۔ صوفیائے کرام نے اس تصور کو اپنی تعلیمات میں اتنا فصاحت و بلاغت سے اجاگر کیا کہ جہالت کفر اور شرک کی دنیا میں احد اور احمد کی صدائیں گونجنے لگ گئیں اور ہکو ہک، تو ہی تو اور دوجا ناں کو۔حروف تہجی الف سے شروع ہوتے ہیں اور یے پر پہنچ کر اپنی معراج کو پہنچ جاتے ہیں۔ الف کہنے والے طالب علم اور الف سے یے تک کا سفر طے کرنے والے طالب علم میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ “یا راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے”۔ شریعت، طریقت۔معرفت اور حقیقت کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ابتدا اور انتہا کی کہانی میں بڑا ہی فرق ہے۔ مذکورہ احوال کی عملی شکل عبدالقادر گیلانی نے اپنے قول وفعل سے مخلوق خدا کے سامنے جب پیش کی تو ہر خاص وعام محی الدین، غوث الثقلین، محبوب سبحانی، قطب ربانی غوث اعظم، دستگیر اور پیراں دا پیر کہنے پر مجبور ہو گیا اور سطحی سوچ رکھنے والے لفظی موشگافیوں میں کھو گئے۔ تاہم شرف الدین بو علی قلندر کچھ یوں بولے (سگ درگاہ میراں شو چو خواہی قرب ربانی۔۔۔ کہ برشیراں شرف دارد سگ درگاہ گیلانی ) سلطان باہو معروف صوفی پنجابی شاعر نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں کہا (بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں تے میں کرساں میراں میراں ہو) پیر مہر علیشاہ گولڑہ شریف نے تو باقاعدہ عبدالقادر گیلانی کی بارگاہ میں اپنی تکلیفوں اور پریشانیوں کے پیش نظر استغاثہ پیش کر دیا (رو رو لکھئیے چٹھئے درداں بھریئے پتہ پچھیں بغداد دے واسیاں دا) کہنے والوں نے تو بہت کچھ کہا اور دور سے دیکھنے والوں نے بھی بہت کچھ کہا۔ کہنے کہنے میں فرق ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ان کی تعلیمات پس پشت ڈال دی گئیں اور خرافات کا طوفان بدتمیزی۔ روحانی فیض لینے والے تو خال خال ہوتے ہیں تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اچھا مسلمان اور انسان بننے والے بھی خال خال رہ گئے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو عبدالقادر گیلانی کی اصل تعلیمات سے آگاہ کیا جائے تاکہ ان کو اللہ تعالی کی معرفت نصیب ہوجائے۔
13