تحریر: مدثر شاہین
قدرت نے خطہ پاک کو قائداعظم ، شاعرمشرق جیسی نابغۂ روزگار ایسی ہستیوں سے سرفراز کیا جنہوں نے فہم و ادراک جدوجہد سے حالات کا دھارا موڑ کر رکھ دیا۔ شاعر مشرق جیسی ہستی طویل مدت کے بعد پاکستان ہی نہیں امت مسلمہ کو قدرت نے ودیعت کیا۔ ان کی شاعری میں قرآن و حدیث اور اِسلام کے فرمودوں کا فوکس نمایاں ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ محکوموں کو آزادی کی روشنی دکھانا ہے۔ انہوں نے خودی کو نئے معنوں سے روشناس کروایا۔ اِن کا پیغام جہد مسلسل اور عمل پیہم کا مژدہ دیتا ہے۔ اِن کی شاعری کا اسلوب و بیان امید کے نئے زاویوں کو آشکار کرتا ہے۔ وہ ناامیدی کو بہت بڑا گناہ تصور کرتے تھے ۔ اگر وہ غرناطہ(سپین) میں جاتے ہیں ماضی کو یاد کرکے دِل گرفتہ ضرور ہوتے ہیں لیکن مسلم سلاطین کو اپنے شاعروں کے ذریعے پھر اِن غلطیوں کا اعادہ نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہیں اور امید و جدوجہد عمل کی ایسی روشنی دکھاتے ہیں جس میں چل کر پھر سے عظمت و کمال حاصل کر سکیں۔شاعر مشر ق صرف پاکستان کے ہی نہیں دوسری اقوام میں بھی عقیدت کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا جس کی تعبیر بابائے قوم حضرت محمد علی جناح نے مسلمانوں ، اقلیتوں کے ساتھ جدوجہد کرکے تکمیل تک پہنچائی ۔ 2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اسلامی حکومت کے تصورکا امتیاز یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکزاللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کی عملی تعمیل کا ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاًنہ کسی بادشاہ نہ پارلیمنٹ کی یا کسی ادارہ کی اطاعت ہے۔ قرآن کریم کے احکامات ہی سیاست معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام اصولوںکی حکومت ہے یہی پیغام شاعر مشرق بار بار مسلمانوں کو اپنے شعروں سے دیتے ہیں۔ ان کا شعری اثاثہ قوم کا ،مسلمانوں کا اور آئندہ کی نسلوں کا وہ اثاثہ ہے جس سے لمحہ بہ لمحہ وہ فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور اپنے گمشدہ شاندار ماضی کی طرف بڑے عزم و استقامت سے عازم منزل ہوتے رہیں گے اگر حکمران ان کے پیغام کو سنجیدگی سے لے کر راہ عمل کے مسافر بن جائیں تو شوکت اسلام دوگام کے فاصلے پر ہے۔ عصر حاضر کے شوریدہ حالات میں ان کے کلام سے استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہی بات ان کی معتقدجرمن متشکر این میری شمل نے عرصہ پہلے کہہ دی تھی ان کاہر شعر حکمت و عملی کا بحر ہے۔ ان پر لاکھوں سلام ہے۔ان کے اشعار میں دنیا کے ہر مشہور واقعہ کا ذکر ہے۔ وہ مسلمانوں کے اتحاد ، یکجہتی اور نوجوان نسل کی قرآن و سنت کی روشنی تربیت پر زور دیتے تھے وہ نوجوانوںمیںشاہین کی صفت دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ ان کی شاعری پر عمل کرکے دنیا کی محکوم اقوام نے فائدہ اٹھایا ۔ اِن کے شاعری فرمودات کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کی حالتِ زار پر رنجیدہ خاطر تو ہوتے لیکن ساتھ ہی قابضِ جارح قوت کو یاد دلاتے کہ سلطان صلاح الدین ایوبینے مفتوحہ علاقوں میں انصاف رواداری کا نظام چلایا اور کسی سے امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔ وہ سقوط بغداد ، سقوط فلسطین کے حالات و سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے محکوموں کو ایک نئی امید اور جدوجہد کی روشنی دیتے ہیں اسی طرح جبل الطارق کے واقعہ کو ذہنی طور پر قبول کرتے ہوئے ایسے ہی طرزِ عمل کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں شاعر مشرق خودی میں ڈوبے ہوئے عظیم انسان تھے ۔ اگر ہم سب مسلمان آذربائیجان سے لے کر خرطوم تک متحد ہو جائیں قرآن و سنت پر عمل کریں تو عظمت رفتہ حاصل کر سکتے ہیں اس طرح ان کے جہان نو کا فلسفہ پورا ہوگا۔
