17

شدید دھند میں اندھا دھند سفر لاہور

محتسب اعلیٰ پنجاب کے ایڈوائزر میاں محسن رشید کے ساتھ قائم تعلق 4عشروں پر محیط ہے اور ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کو اہمیت دی ہے، میاں محسن رشید کی شخصیت فیصل آباد کے حوالے سے کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، انتہائی مخلص اور ہنس مُکھ اس معروف شخصیت نے 90ء کی دہائی میں 1998-99ء کے دوران فیصل آباد میں علاقہ مجسٹریٹ اور پھر سٹی مجسٹریٹ کے طور پر جو نمایاں کارنامے سرانجام دیئے وہ ان کی کارکردگی کے باب میں سنہری حروف سے لکھے جا چکے ہیں، بے شک! اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بے شمار خوبیاں عطا فرمائی ہیں اور انسان جب فہم وفراست سے کام لے تو ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے اور پھر ہر خاص وعام اس کی شاندار کارکردگی کا معترف نظر آتا ہے، میاں محسن رشید نے بھی اپنے فرائض منصبی نہایت احسن طریقہ سے سرانجام دیتے ہوئے جو داد وتحسین حاصل کی، وہ قابل صد ستائش ہے 1998ء میں جب میاں محسن رشید فیصل آباد میں علاقہ مجسٹریٹ تھے تو راقم روزنامہ غریب میں سٹاف رپورٹر تھا، میرا ان کے ساتھ دوستانہ تعلق اس دوران بھی ایک مثال بنا رہا اور ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کے احساسات کا مکمل احترام کیا، اس جہان میں اگر کسی کو اچھا ساتھی’ اچھا رفیق میسر آ جائے تو یہ خوش قسمتی ہے، نفسانفسی کے اس دور میں اخلاقی قدریں زوال پذیر ہو رہی ہیں اور اکثر لوگوں کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو ہی اپنی ترجیح بنائے رکھتے ہیں چاہے اس کے لیے کسی ناجائز ذریعے کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے، مگر یہاں ان لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو ہمیشہ سنہری اصولوں پر چلتے ہیں اور ان کا اعلیٰ کردار دوسرے لوگوں کے لیے مشعل راہ بن جاتا ہے، میاں محسن رشید بھی وہ شخصیت ہیں، جو ہمیشہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پر عمل پیرا رہے، وہ فیصل آباد سے جانے کے بعد بھی اس شہر کو نہیں بھولے اور یہاں پر جن جن لوگوں سے ان کا تعلق رہا وہ اسے آج بھی نبھا رہے ہیں، راقم جب روزنامہ غریب فیصل آباد میں اپنے صحافتی فرائض سرانجام دے رہا تھا تو 1999ء میں آغا ارباب خاور بھی بطور رپورٹر وہاں آ گیا’ اس نے میاں محسن رشید کے حوالے سے ایک فیک نیوز بنائی اور وہ خبر اخبار میں چھپ بھی گئی، اس خبر کے روزنامہ غریب فیصل آباد میں شائع ہونے پر میرے اور میاں محسن رشید کے تعلقات کو شدید قسم کا نقصان پہنچا، وہ سمجھتے تھے کہ یہ خبر میں نے شائع کی یا پھر کم ازکم اس میں میری مرضی بھی شامل ہے مگر درحقیقت ایسا ہرگز نہیں تھا، جس دن میاں محسن رشید کے بارے میں خبر بنائی اور چھپائی گئی اس روز میں چھٹی پر تھا، اس معاملے میں میرا کسی بھی قسم کا کوئی کردار نہ تھا مگر اس خبر کی اشاعت نے میرے اور میاں محسن رشید کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دی تاہم جب انہیں حقیقت حال سے آگاہی حاصل ہوئی تو انہوں نے سارے گلے شکوے ختم کر دیئے اور ہم میں ایک بار پھر پہلے جیسا دوستانہ تعلق قائم ہو گیا، میں نے ”ڈیلی بزنس رپورٹ” میں اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی شروع کی تو میاں محسن رشید بڑے خوش ہوئے، اگرچہ اب وہ سرکاری جاب سے ریٹائر ہو چکے ہیں تاہم محتسب اعلیٰ پنجاب کے ایڈوائزر کے طور پر ان کی شاندار کارکردگی قابل تحسین ہے، یکم فروری کی رات ان کے بیٹے میاں علی عبداﷲ محسن کی دعوت ولیمہ لاہور کی (Grand Nexus Marquee) میں تھی، جس میں شرکت کیلئے مجھے جانا تھا، آبروئے صحافت عبدالرشید غازی (مرحوم ومغفور) کے نواسے ہمایوں طارق ایڈیٹر ”ڈیلی بزنس رپورٹ” اپنی مصروفیات کے باعث میاں محسن رشید کے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں نہ جا سکے تاہم انہوں نے میرے جانے کیلئے کار اور ادارے کے ڈرائیور ولی محمد کو بھیج دیا اور ہم میاں محسن رشید سے اپنا دیرینہ تعلق نبھانے کیلئے ان کے صاحبزادے میاں علی عبداﷲ محسن کی دعوت ولیمہ میں شرکت کیلئے روانہ ہو گئے اور ساہیانوالہ موٹروے کے قریب پہنچے تو ہمیں شدید دھند نے گھیر لیا، اسے کیا کہیئے کہ شدید دھند میں بھی سریا اور لکڑی سے بھری ٹرالیاں آ جا رہی تھیں ان پر فلیکٹر بھی نہیں لگائے گئے تھے، ٹریفک قواعد کی کھلے عام خلاف ورزی دیکھ کر افسوس ہوا، اس طرح کی بے اصولی اور نامناسب حد تک جلدبازی کی وجہ سے حادثات میں ہونیوالا اضافہ بھی ہمیں راہ راست پر نہیں لا سکا، ہمارے ملک میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانا معمول بن چکا ہے، کوئی اپنی گاڑی غلط طریقے پر بیچ میں لے آتا ہے، کوئی گاڑی ایسی جگہ روک دیتا ہے جہاں روکنے کی اجازت نہیں ہے، اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت سواری بھی ہے، انسان نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گاڑی ایجاد کی تو ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے قوانین بھی متعارف کروائے مگر یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے باعث حادثات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، فیصل آباد سمیت دیگر علاقوں میں ون ویلنگ جیسی خطرناک باتوں سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، لوگوں کی بڑی تعداد ٹریفک سگنلز پر بھی دھیان نہیں دیتی اور نامناسب حد تک جلدبازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکومت عوام کی حفاظت کو مدنظر رکھ کریں انہیں پابند کرتی ہے کہ وہ متعین سمت سے ہی سفر کریں اور کہیں تیز چلنے’ کہیں آہستہ چلنے’ رُکنے اور نہ رُکنے’ گاڑی کسی مقام پر ٹھہرانے اور کسی مقام پر نہ ٹھہرانے سے متعلق قوانین ہیں جن کا مقصد ہماری جان ومال کا تحفظ ہے مگر یہ ستم ظریفی ہے کہ ہم ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں، بلاضرورت ہارن بجانا بھی غلط ہے مگر ہمارا حال یہ ہے کہ کئی لوگوں نے موٹرسائیکلوں پر بھی پریشر ہارن لگا رکھے ہیں، جن کے بجانے سے سنجیدہ لوگوں کو شدید پریشانی ہوتی ہے’ بلاضرورت اور مسلسل پریشر ہارن بجانا بعض اوقات حادثے کا باعث بھی بن جاتا ہے جسے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اس فعل سے باز نہیں آتے، حد تو یہ ہے کہ ممنوعہ علاقے میں بھی بے جا ہارن بجانے سے گریز نہیں کیا جاتا، ممنوعہ علاقے سے مراد ہسپتال یا تعلیمی ادارے وغیرہ ہیں جہاں پر بلاضرورت یا پریشر ہارن بجانا مریضوں اور معصوم طالب علموں کے لیے سخت ناگوار ثابت ہوتا ہے، الغرض ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی عام لوگوں کے لیے بڑی مشکلات کا باعث بنتی ہے اور یہ مہذب قوموں کا شیوہ بھی نہیں ہے اس لئے ہمیں اس سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے۔شدید دھند میں ہم نے گاڑی کی رفتار کو کم رکھا اور رات 10بجے میاں علی عبداﷲ محسن کی دعوت ولیمہ میں پہنچے تو تقریب آخری مراحل میں تھی، ہم میاں محسن رشید سے ملے، جنہوں نے دیگر مہمانوں کی طرح ہماری شاندار کھانے سے تواضع کی جس کے دوران بابائے صحافت عبدالرشید غازی کے تذکرے ہوتے رہے، نسیم صادق جب AC سٹی تھے تو ان کا بھی میاں محسن رشید کی طرح بانی ثانی ”ڈیلی بزنس رپورٹ” جناب عبدالرشید غازی سے قریبی تعلق قائم ہوا اور ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا بھی ہو گیا، ان دونوں نے غازی صاحب کو باپ جیسا مقام دیا اور انہوں نے بھی نسیم صادق اور میاں محسن رشید کو اپنے بیٹوں جیسا پیار دیا، دعوت ولیمہ میں فیصل آباد شہر کا تذکرہ بھی ہوتا رہا، اس شہر میں علاقہ مجسٹریٹ اور سٹی مجسٹریٹ کے فرائض سرانجام دینے والے میاں محسن رشید نے جعلی ڈگری سکینڈل کے مرکزی کردار اقبال بلہڑ کو بھی پکڑا، ڈی ٹائپ کالونی کا رہائشی یہ شخص اس قدر بدنام ہوا کہ لوگ جعلی ڈگری کے حوالے ”بلہڑ یونیورسٹی” کا فرضی نام لیکر دینے لگے، دعوت ولیمہ سے ہم رات گیارہ بجے واپس روانہ ہوئے، اور سوا تین بجے واپس گھر پہنچے، مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنے دوستوں سے اپنا تعلق ہمیشہ اسی طرح احسن انداز میں نبھایا ہے اور اس میں کبھی موسم کی سختیوں یا دیگر مجبوریوں کو آڑے نہیں آنے دیا، میاں محسن رشید کے صاحبزادے میاں علی عبداﷲ محسن کی دعوت ولیمہ میں شرکت کر کے مجھے بڑی خوشی ملی، اﷲ کرے نوبیاہتا جوڑے کی زندگی خوشیوں سے بھری رہے اور انہیں زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی وکامرانی ملے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں