ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث تاحال ملک مختلف بحرانوں کا شکار ہے گزشتہ 5سال کے دوران پہلے پی ٹی آئی اور بعد میں پی ڈی ایم کی حکومت رہی مگر دونوں ہی سیاسی عدم استحکام کے خاتمہ کیلئے چنداں کوششیں کرنے میں ناکام رہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے سیاسی محاذ آرائی نے بڑھتے بڑھتے عوام اور ریاست کو مہلک درجے کی سیاسی وانتظامی اور معاشی ابتری میں مبتلا کر دیا ہے آج وطن عزیز کے حالات بے یقینی میں گھرے ہیں عوام بند گلی میں آ چکے ہیں جہاں سے کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا اور یہ سب سیاستدانوں کا کیا دھرہ ہے ملک کے ادارے خسارے کا شکار ہیں مہنگائی’ بدامنی’ بے روزگاری’ غربت کے ملک میں ڈیرے ہیں جو لوگ ملک کے عوام کو وقت کے گرداب سے نکالنے کے ذمہ دار ہیں وہ عوام سے لاتعلق ہیں اور انہیں صرف اپنے اقتدار کی فکر ہے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر تنقید کے ڈونگرے برسانے سے باز نہیں آتیں نتیجتاً سیاسی محاذ آرائی پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے سیاستدانوں نے ماضی سے کبھی سبق نہیں سیکھا عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی کرنا عوام کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے عوام اپنے نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں مگر کوئی بھی ان کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہر دن عوام کیلئے مشکلات لا رہا ہے اور اسے مشکلات کے بھنور سے نکلنے کی کوئی راہ سجائی نہیں دے رہی ایسے میں ملک کو بحرانوں اور مشکلات سے نکالنے کا واحد راستہ پُرامن شفاف انتخابات ہیں پاکستان اپنے آئین کے مطابق الیکشن کے انعقاد سے گزشتہ کئی سالوں سے جاری بحرانوں سے نکلنے کی کوشش کرے تو ہی بات بنے گی حکومتی ذرائع اور سیاسی قیادتیں بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ملک میں جاری گھمبیر صورتحال سے نکلنے کا راستہ شفاف انتخابات ہیں آٹھ فروری 2024ء کو عام انتخابات کی نوید قوم کو سنائی جا چکی ہے مگر بعض سیاسی شخصیات دبے دبے الفاظ میں یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ اگر الیکشن چند روز آگے بھی ہو جائیں تو کوئی بات نہیں مگر سپریم کورٹ نے 8 فروری کو انتخابات پتھر پر لکیر قرار دیکر سب خدشات کو ختم کر دیا ہے پی ٹی آئی نے بھی کوششیں کیں لہ الیکشن کسی نہ کسی طرح تعطل کا شکار ہو جائیں مگر سپریم کورٹ نے اس کو مسترد کر دیا الیکشن کمیشن شیڈول جاری کر چکا ہے کاغذات نامزدگی جمع ہو چکے’ کاغذات کی جانچ پڑتال مکمل کر لی گئی اعتراضات پر درخواستیں دائر ہو رہی ہیں 10جنوری تک ٹربیونلز سے فیصلے آ جائیں گے اور اس کے بعد گیارہ جنوری کو امیدواروں کی حتمی فہرست کا اعلان ہو جائے گا جبکہ اس کے بعد انتخابی نشانات الاٹ ہو جائیں گے اور بالآخر 8فروری کو عام انتخابات کا انعقاد ہو گا اور جو سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرے گی اس کو حکومت سازی کیلئے کہا جائے گا لیکن یہ بات یاد رکھنی ہو گی کہ نئی حکومت کیلئے بے شمار چیلنجز ہوں گے جن سے نمٹنا ضروری ہو گا ہم نے درج بالا سطور میں یہ ذکر کیا ہے کہ عام انتخابات شفاف طریقہ سے منعقد کرانے کے علاوہ ملک کے بحرانوں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے لہٰذا الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو اس جانب اپنی توجہ مبذول کرنی ہو گی نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ ملک میں پُرامن انتخابات کرانے کیلئے الیکشن کیشن آف پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کا اعلان کر چکے ہیں اور ان کی پوری کوششیں ہو گی کہ وہ ملک کو سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کے اپنے عزم کو پورا کر دکھائیں تاہم اس حوالے سے سیاسی قیادتوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی محاذ آرائی کے بجائے جمہوریت کی مضبوطی کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں اسی میں ملک وقوم کی بھلائی ہے اگر اس بار بھی انتخابات کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی گئیں تو یہ نقصان دہ ہو گا اور پاکستان جو پہلے ہی مختلف بحرانوں کا شکار ہے مزید تجربوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
