43

صدر کے مواخذے کی تیاریاں

اسلام آباد(بیوروچیف)نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب ایک آئینی اور پارلیمانی تقاضے کی تکمیل ہے اور چونکہ صدر مملکت کا تعلق حکومتی جماعت سے ہوتا ہے اس لئے تقریر کے موقعہ پر اپوزیشن کے مخالفانہ جذبات کو نظرانداز کرکے حکومتی اقدامات کی تعریف کرنا اور کبھی کبھی اپوزیشن پر تنقید کرنا بھی صدور کی تقریر کی روایات بن چکی ہے’جس پر اپوزیشن کی جانب سے ہنگامہ آرائی، ڈائس کا گھیراو، صدر کے خلاف نعرہ بازی، مخالفانہ سلوگنز اور واک آوٹ بھی اس سارے عمل کا ایک حصہ بن چکا ہے پیر کو ایوان کی صورتحال کا اندازہ حکومتی رکن اسمبلی برجیس طاہر کے ان ریمارکس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جنہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے صدر کی جانب سے دو صوبوں میں الیکشن کی تاریخ دینے کے تناظر میں اسے ایوان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہی عارف علوی اس ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن دونوں بنچوں پر بیٹھتے رہے ہیں لیکن آج ان کا کردار پورے ایوان کیلئے باعث شرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کارروائی کے ایجنڈے میں 10 ویں نکات پر صدر کے خطاب پر اظہار تشکر کی کارروائی لکھا گیا ہے لیکن میری درخواست ہے کہ اس کارروائی کو منسوخ کردیا جائے صدر کے موجودہ کردار کے پیش نظر ان کی تقریر پر اظہار تشکر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ برجیس طاہر کا کہنا تھا کہ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں لیکن رانا تنویر کچھ اور کہہ رہے ہیں جس پر اراکین نے بلند آواز میں استفسار کیا کہ ۔ ایوان کو بتائیں رانا تنویر کیا کہہ رہے تھے جس پر برجیس طاہر کے ریماکس بیان کیے تو ارکان نے ڈیسک بجائے اور سپیکر نے مسکراتے ہوئے یہ ریمارکس حذف کر دیئے تاہم بعض ارکان سنجیدگی سے صدر کیخلاف مواخذے کی تحریک پیش کرنے پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ لیکن پیر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران یہ تاریخ بھی رقم ہوئی کہ معمول کی کارروائی کے دوران منصب صدارت پر براجمان اپوزیشن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف حکومتی جماعت کے وزرا اور ایوان میں موجود اراکین نے صدر کی جانب اپنے صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان کے بعض اقدامات، جارحانہ الفاظ اور پرجوش انداز میں سخت تنقید کی اور الزامات عائد کئے عمران خان کا آلہ کارقرار دیا، پھر یہ صورتحال بھی کسی المیے سے کم نہیں تھی کہ ایوان میں ان کا دفاع کرنے کیلئے کوئی آواز نہیں اٹھی اور ڈیسک بجانے والے تمام اراکین صدر مملکت پر تنقید کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ گوکہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے وزرا اور اراکین گزشتہ چند ہفتوں سے صدارت کے منصب پر براجمان عارف علوی کے حکومت مخالف اور عمران خان کی حمایت میں کی جانے والی سرگرمیوں کو مسلسل ہدف بنا رہے ہیں بالخصوص لاہور میں عمران خان کے گھر پر جاکر ان سے ملاقاتوں پر انتہائی سیخ پا ہیں لیکن اب جبکہ انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کیلئے 9 اپریل کی تاریخ دے دی ہے جس پر یہ معاملہ پوری شدت سے قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی آگیا ہے اور کم وبیش تمام ہی ارکان نے ڈاکٹر عارف علوی کو ان کے سیاسی کردار اور مذکورہ اقدام کے حوالے سے تختہ مشق بنایا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں