تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے فیصلہ کے مطابق خالی حلقوں میں سابق ارکان اسمبلی ہی الیکشن لڑیں گے جنہیں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ہدایت کر دی گئی ہے پہلے فیصلہ میں ہوا تھا کہ عمران خان ضمنی الیکشنز میں خود امیدوار ہوں گے مگر اب موجودہ صورتحال کے پیش نظر فیصلہ تبدیل کر لیا گیا ہے جس کے بعد ضمنی الیکشنز میں تحریک انصاف کے سابقہ ارکان اسمبلی ہی حصہ لیں گے الیکشن کمیشن نے 33 انتخابی حلقوں میں 16مارچ کو الیکشن شیڈول جاری کر رکھا ہے، دوسری جانب ضمنی انتخابات میں حکومتی اتحاد مشترکہ امیدوار لانے پر غور کر رہا ہے، عمران خان کا قومی اسمبلی کے خالی حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ صحیح ہے ان حلقوں میں سابقہ ارکان قومی اسمبلی کو ہی میدان میں اتارنا بنتا ہے اس فیصلے سے عمران خان پر مخالفین کو تنقید کا موقع بھی نہیں ملے گا جبکہ ان کی پارٹی میں کسی قسم کی دراڑیں بھی نہیں پڑیں گی عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں سیاسی فیصلے بہت کم جبکہ غیر سیاسی فیصلے زیادہ کئے جن کی وجہ سے ان کو غیر سنجیدہ سیاستدان کہا جا رہا ہے حالانکہ ان کو چار سالہ دور اقتدار میں بطور وزیراعظم سیاست کے زموزواسرار کی سمجھ آ جانی چاہیے تھی مگر انہوں نے سیاست پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے پر زیادہ توجہ دی اور اسی کا رزلٹ ہے کہ وہ اپنی سیاست کو استحکام نہیں دے سکے بیانئے گھڑنے اور بیانات بدلنے کے باعث ان پر سیاسی حلقے اعتماد نہیں کرتے اور ان کو غیر سنجیدہ سیاست دان کے نام سے پکارتے ہیں قبل ازیں عمران خان نے 7حلقوں سے خود الیکشن لڑا تھا جس کو سیاسی حلقوں میں غیر سیاسی فیصلہ قرار دیا گیا تھا قومی اسمبلی کے 33 حلقوں کے الیکشن شیڈول کے بعد بھی وہ تمام حلقوں سے امیدوار کی صورت میں سامنے آئے مگر اب انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر کے ان حلقوں سے استعفے دینے والے ارکان کو الیکشن میں حصہ لینے کی ہدایت کی ہے جو خوش آئند ہے الیکشن مارچ میں ہونے جا رہے ہیں اور مارچ کوئی دور نہیں لہٰذا تحریک انصاف کی مقبولیت کا مارچ میں پتہ چل جائے گا کہ آیا اس جماعت کو ووٹرز اس مرتبہ بھی پذیرائی دیں گے یا نہیں اتحادی حکومت بھی اس حوالے سے سرگرم ہے اور اس نے تحریک انصاف کے امیدواروں کے مقابلے میں مشترکہ امیدواروں کو میدان میں اتارنے پر غور شروع کر دیا ہے اور اس حوالے سے فیصلہ سامنے آنے کے بعد سیاسی صورتحال دلچسپ ہو جائے گی اور دونوں فریقین کی سیاسی قوت اور عوام میں پذیرائی کا نتیجہ سامنے آ جائے گا کیونکہ عوام کی رائے ہی اپنی قیادت کا چنائو کرتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ جن حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوں گے وہاں پر شفاف طریقے سے الیکشن کرائے جائیں اور جو جماعت جیتے اس کا مینڈیٹ تسلیم کیا جائے اور بلاوجہ دھاندلی کے الزامات لگانے سے احتراز کیا جائے۔
41