بانی پی ٹی آئی نے اپنے تین نکاتی مطالبات کی منظوری کیلئے حکومت کو 23نومبر کی ڈیڈلائن دی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ اگر ہمارے یہ تینوں مطالبات منظور نہ ہوئے تو پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی ٹکٹ ہولڈرز’ تمام ونگز کے عہدیداران وکارکنان ڈی چوک اسلام آباد پہنچیں گے، PTI قائدین کی طرف سے احتجاج کی کال کو فائنل کال کہا گیا جو ناکام ثابت ہوئی، فائنل کال دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا، انہیں سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے لچکدار رویہ اختیار کرنا چاہیے، ان کا اعلان ہی غیر سیاسی تھا، فائنل کال ناکام ہو گئی ہے تو کیا اب یہ سمجھا جائے کہ ان کی جماعت یا سیاست ختم ہو گئی، PTI کے قائدین نے احتجاج کا اعلان کرتے ہی شرطیں عائد کرنا شروع کر دیں’ مذاکرات اور مفاہمت کیلئے یہ شرط رکھی گئی کہ پاکستان تحریک انصاف کے اسیر قائدین وکارکنان کو رہا کیا جائے، 9 مئی کے واقعات اور 8فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کمیشن بنائے جائیں اور ہمارا چوری شدہ مینڈیٹ ہمیں لوٹا دیا جائے تو ہم ہر کسی سے بات چیت کیلئے تیار ہیں مگر PTI کے قائدین اور حکومت میں اس بارے مفاہمت نہ ہو سکی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے احتجاج میں اپنی اہمیت ثابت کرنے کیلئے ہر جتن کیا اور وہ اپنے صوبہ سے بڑا جتھہ لیکر شہر اقتدار کی طرف رواں دواں نظر آئے’ علی امین گنڈاپور کو چاہیے کہ وہ اپنے صوبہ کے عوام کو درپیش مسائل ومشکلات حل کریں’ مگر اسے کیا کہئے کہ وہ اس جانب توجہ نہیں دے رہے اور وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا ہی ان کا مقصد بن چکا ہے، PTI قائدین نے احتجاج کے لیے جو فائنل کال دی اسے کامیاب بنانے کے لیے بھی علی امین گنڈاپور نے دن رات ایک کر دیئے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیرقیادت صوابی سے روانہ ہونے والا بڑا قافلہ پنجاب میں داخل ہوا تو گنڈاپور اور بشریٰ بی بی نے دعوے کئے کہ جتنا مرضی وقت لگ جائے ڈی چوک پہنچنا ہے’ PTI کا قافلہ اسلام آباد داخل ہوا تو جھڑپوں میں ایک کانسٹیبل شہید ہو گیا’ PTI کے احتجاج کے دوران شرپسندوں نے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی اور 3 اہلکار جام شہادت نوش کر گئے، اس صورتحال کے تناظر میں اسلام آباد میں فوج طلب کرنا پڑی’ پولیس اور رینجرز نے ڈی چوک’ بلیو ایریا خالی کروا لیا، گرینڈ آپریشن کر کے مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا، بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور وہاں سے چلے گئے جبکہ پولیس نے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا’ یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ نے وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کرنے والے جتھے کی قیادت کرنے سے بھی گریز نہیں کیا، اگر کسی صوبے کا وزیراعلیٰ ہی ایسا کرے تو وہاں عوام کو ایسی باتوں سے کون روکے گا، قانون شکنی کو دلیری اور جرأت مندی سے تعبیر کرنا دور جاہلیت کی روایت ہے جس کو خیرباد کہہ کر آگے بڑھنے میں ہی ہماری بھلائی ہے، پُرتشدد احتجاج بھی ایسی قانون شکنی ہے جس سے ملک وقوم کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان احتجاجی مظاہروں سے امن وامان کے حالات خراب اور عام لوگوں کے معمولات زندگی میں بہت رخنہ اندازی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، ملک میں اس وقت معاشی حالات بھی زیادہ تسلی بخش نہیں لہٰذا پرتشدد مظاہروں سے بہرصورت اجتناب کرنا ہو گا مگر جب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی قیادت میں بڑے جتھے نے وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کی تو اہل دانش سوچتے ہی رہ گئے کہ ان کا کام کیا ہے اور یہ کر کیا رہا ہے، اس دوران جو کچھ وہاں ہوا اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں، یہ لوگ کس طرح اسلام آباد پہنچے اور کس طرح میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، یہ باتیں پوری قوم جان چکی ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے جو کردار ادا کیا وہ آنیوالے دنوں میں ایک غلط روایت ثابت ہو سکتا ہے اور اگر اس سلسلے کا سختی سے تدارک نہ کیا تو مستقبل میں یہ ایک خطرناک روش ثابت ہو گی، وطن عزیز میں مختلف سیاسی جماعتیں برسراقتدار رہتی ہیں، اکثر اوقات مرکز میں جس جماعت کی حکومت ہو، تمام صوبوں میں اس کی حکومتیں نہیں ہوتیں اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی صوبے کا وزیراعلیٰ ہی وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنا شروع کر دے تو نظام حکومت کیسے چلے گا، علی امین گنڈاپور کی زیرقیادت PTI کے کارکنوں کے پرتشدد مظاہروں نے الارمنگ صورتحال پیدا کر دی ہے۔ پاکستان میں انار کی پھیلانے کیلئے بھارت اور بعض دیگر ممالک کی حکومتوں نے ماضی میں جو کردار ادا کیا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں’ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ہونیوالے پرتشدد مظاہروں کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جائے، اس سلسلے میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بننی چاہیے، اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان دنیا کے اسلامی ممالک کا مان ہے، لہٰذا ہمیں ملک کو اقوام عالم میں عظیم سے عظیم تر مقام دلانے کیلئے اخلاقی روایات کی پاسداری اور جمہوری اقدار کو فروغ دینا چاہیے، احتجاج کی فائنل کال کے دوران جو پُرتشدد واقعات پیش آئے وہ لمحہ فکریہ ہے، لہٰذا مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے سخت ایکشن لینا چاہیے، اگر 9مئی کے واقعات میں ملوث قومی وفوجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالے شرپسندوں کو قرار واقعی سزائیں مل جاتیں تو پُرتشدد مظاہروں جیسے واقعات دوبارہ پیش نہ آتے لہٰذا عدالتوں کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، PTI کے ذمہ داران نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اس اقدام سے اپنی پارٹی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے، اگر آخری کال، کال آف ہی کرنی تھی تو حکومت سے فراہم کردہ درمیانی راستہ اختیار کر لینا چاہیے تھا، کاش میرے ملک کے سیاستدان دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور ان کے فیصلے عوامی امنگوں کے عین مطابق ملک وقوم کے بہترین مفاد میں ہونے چاہیے۔
16