41

قومی اسمبلی کے 43حلقوں میں ضمنی الیکشن روکنے کا عدالتی حکم (اداریہ)

لاہور ہائیکورٹ نے PTi کے 43 سابق ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری معطل کر دی اور ان حلقوں میں ضمنی انتخابات بھی تاحکم ثانی روکنے کا حکم دیا ہے عدالت میں دائر درخواست میں سپیکر قومی اسمبلی الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے ریاض فتیانہ، نصراﷲ خاں’ طاہر صادق نے درخواست دائر کی ہے جس کی سماعت جسٹس شاہد کریم کر رہے ہیں عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ کن قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپیکر نے استعفے منظور کرنے سے قبل آئین کے تحت انکوائری نہیں کی ممبران اسمبلی کے استعفے عدالت عظمیٰ کے طے کردہ قوانین کے برعکس منظور کر لئے گئے استعفے منظور کرنے سے پہلے سپیکر نے ممبران کو بلا کر موقف نہیں پوچھا،، عدالت نے الیکشن کمیشن کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حتمی فیصلے تک منظور کی گئی نشستوں پر الیکشن روکنے کا حکم دیا، تحریک انصاف کے تمام اراکین قومی اسمبلی نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم کامیاب ہونے کے بعد اجتماعی استعفے دیئے تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے استعفے فوری منظور کئے جائیں مگر سپیکر قومی اسمبلی نے فوری استعفے منظور نہیں کئے سپیکر کا موقف تھا کہ ہر رکن قومی اسمبلی کو فرداً فرداً بلا کر پوچھا جائے گا کہ کس نے کسی دبائو میں اسمبلی سے استعفیٰ تو نہیں دیا اسپیکر کے پہلے گیارہ ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کئے پھر کچھ عرصہ بعد 33 ارکان کے استعفے منظور کئے جبکہ بعدازاں پھر مزید استعفے قبول کئے اس طرح پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد اتنی کم اسمبلی میں رہ گئی کہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہیں رہی،، تحریک انصاف نے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کیلئے اب لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے جس کی سماعت میں جسٹس شاہد کریم نے 43 حلقوں میں الیکشن تاحال ثانی روک دیئے ہیں ان حلقوں میں 16مارچ کو الیکشن ہونے جا رہے تھے! قومی اسمبلی کے 43حلقوں میں عدالتی حکم پر الیکشن روک دیئے گئے ہیں صدر مملکت نے دو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کیا جائے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90روز میں الیکشن کرانا ضروری ہیں،، ایک جانب قومی اسمبلی کے 43حلقوں میں انتخابات روکنے کا حکم عدالت نے دیا ہے دوسری جانب صدر مملکت الیکشن کمیشن پر زور دے رہے ہیں کہ وہ دو صوبائی اسمبلیوں کو جو تحلیل کی جا چکی ہیں میں الیکشن کرانے کی تاریخ کا اعلان کرے الیکشن کمیشن اس وقت دبائو کا شکار ہے اتحادی حکومت الیکشن نئی مردم شماری کے تحت کرانا چاہتی ہے اور مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن کرانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی صورتحال روز بروز غیر واضح ہو رہی ہے مائنس ون فارمولے کا تذکرہ پھر سے تیز ہو رہا ہے عمران خان کی پیشیاں چل رہی ہیں یوں لگتا ہے کہ زمان پارک کی ہر حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے تحلیل شدہ اسمبلیوں میں الیکشن کی تاریخ سامنے نہیں آ رہی کبھی جیل بھرو تحریک اور کبھی پہیہ جام کی باتیں کر کے پیغام دیا جا رہا ہے کہ ملک میں امن وسکون کی باتوں پر یقین نہ کیا جائے عمران خان کو روزانہ کی بنیاد پر جھٹکوں کا سامنا ہے وہ عدالتوں میں دو طرح کے معاملات سے نبردآزما ہیں ایک انہیں وہ مقدمات درپے ہیں جن کی نوعیت سراسر مجرمانہ ہے اور وہ سخت تقریر کے حامل ہیں دوسرا وہ سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے عدالتی سہارے کو استعمال کر رہے ہیں انہیں عدالتوں سے وہ رعایت نہیں مل رہی جس کے وہ خواہش کر رہے ہیں حالات بتا رہے ہیں کہ اب نتائج ایک ایک کر کے برآمد ہوں گے اور ان میں انصاف کی فرمانروائی ہو گی تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت میں ناچاقی اب سنگین اختلافات کا روپ دھار چکی ہے ایک دوسرے کو تلف کرنے کے شوق میں باہم سر پھٹول میں مصروف ہیں یہ نام نہاد زعما زرعی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے دکھائی دے رہے ہیں عمران خان اس صورتحال میں بے بس ہو کر رہ گئے ہیں، اب زمان پارک کی ایوان صدر سے بھی لائن کٹ گئی ہے صدر مملکت عارف علوی اور عمران خان کے درمیان رابطے منقطع ہیں جس سے زمان پارک کی مایوسیوں میں اضافہ ہوا ہے مسلم لیگ (ن) ہو یا پی پی پی حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی ہر جماعت کا فوکس مائنس عمران ہے پی ٹی آئی نے سیاسی مخالفین کے دبائو کے باوجود سسٹم کے اندر رہنے کا فیصلہ کیا ہے ضمنی انتخابات سے سیاسی جماعتوں کو اور ان کے امیدواروں کو اگلے عام انتخابات کے میدان میں اترنے کی تیاریوں کا اندازہ ہو جائے گا، عمران خان اور ان کی پارٹی کی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اگر اب بھی پی ٹی آئی نے انتشار افراتفری گالم گلوچ الزامات کی سیاست کو ترک نہ کیا تو پھر تحریک انصاف کا نام ونشان بھی بتدریج مٹ جائے گا عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں جتنے یوٹرنز لینے تھے لے لئے اب مزید یوٹرن نہیں چلیں گے سیاست میں دربند رکھنے والے تنہا رہ جاتے ہیں سیاسی اختلافات کو اس حد تک نہیں لے جانا چاہیے کہ سلام دُعا ہی جاتی رہے عمران خان کی یہ غلطی ان کی سیاست کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے ان کیلئے اب بھی وقت ہے کہ وہ سیاست کے رموز واسرار سمجھیں اور ایک اچھے سیاستدان بنیں…

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں