پنجاب میں حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے دیئے گئے چار ناموں میں سے الیکشن کمیشن نے محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کر دیا انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا (ق) لیگ اور تحریک انصاف کا الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان، عمران خان کا کہنا ہے کہ محسن نقوی ہماری حکومت کے خلاف بیرونی سازش میں آلہ کار تھے، جبکہ سابق صدر آصف زرداری نے نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب بہترین قرار دیا ہے، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرصدارت اجلاس میں محسن نقوی کے نام پر اتفاق کیا گیا جس کے بعد گورنر پنجاب کو نگران وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے لیے خط لکھا گیا، تحریک انصاف پر نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی بجلی بن کر گری اور اس نے ملک گیر احتجاج کا عندیہ دیا ہے پی ٹی آئی کے مرکزی راہنمائوں کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت ایسے حالات پیدا کرنے چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کا راستہ روکا جائے،، پرویز الٰہی اور تحریک انصاف کی ہر سیاسی کام میں ضد اور عدالت جانے کی عادت اب پکی ہو گئی ہے جو فیصلہ ان کے مطابق نہ ہو اس کو مسترد کر دیتے ہیں اور عدالتوں کا سہارا لیا جاتا ہے پرویز الٰہی اور عمران خان کی پسند کا نگران وزیراعلیٰ مقرر کیا جاتا تو ٹھیک اگر اپوزیشن کے ناموں میں ایک نام کا الیکشن کمیشن نے متفقہ طور پر چن لیا تو کیا قیامت آ گئی جب سیاسی لوگ کوئی فیصلہ نہیں کر سکے تو آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نے ہی فیصلہ کرنا تھا سو اس نے فیصلہ کر دیا اس کے بعد اب کسی احتجاج یا کسی ضد کا کوئی جواز نہیں بنتا،، عمران خان کو جب اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو اسی دن سے انہوں نے ملک میں انتشار کی سیاست شروع کر دی تھی انہوں نے بھی دیگر سیاست دانوں کی طرح یہ موقف اختیار کیا کہ ان کی ناکامی کا ذمہ دار کوئی اور ہے، نہ نیب ان کے اختیارات میں تھی نہ اہم فیصلے کر سکتے تھے نہ ان کے ہاتھ میں کچھ تھا، نہ وہ آزاد تھے یہ باتیں وہ لوگ کرتے رہے جو ملک وقوم کو بدلنے اور نیا پاکستان بنانے آئے تھے وہ جماعت جو الزامات لگاتی رہی جن کے خیال میں وہ ایک پیج پر تھے اور انہیں اداروں کی طرف سے تاریخی حمائت رہی یعنی وہ جماعت جو ملک وقوم کے مسائل حل کرنے کی طرف بڑھ نہ سکی، پارلیمنٹ میں عزت وتوقیر میں اضافے کے لیے بھی کچھ نہ کر سکی بھرپور حمایت’ تعاون اور وقت ملنے کے بعد منظر بدل گیا، منظر نامہ بدل گیا سوچ بدل گئے خیالات بدل گئی جنہیں سب سے زیادہ قریب اور بہترین سمجھا جاتا تھا انہیں بُرا بھلا کہنے کا سفر شروع ہوا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس عرصے میں پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی کیا مسائل پارلیمنٹ میں زیربحث آئے کیا مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوئے کیا پارلیمنٹ نے اپنا کردار ادا کیا، جب ملک میں جمہوریت ہے، صوبائی اسمبلیاں ہیں قومی اسمبلی ہے عوام کے منتخب نمائندے ہیں سینیٹ ہے پھر بھی تعمیری کاموں اور فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے کے بجائے کسی اور جگہ ہوتے رہے کیا یہ سیاست دانوں کی ناکامی نہیں؟ کتنی مرتبہ ایسا ہوا کہ عدالت کو باامر مجبوری مداخلت کرنا پڑی کتنی مرتبہ ایسا ہوا کہ سیاست دانوں کو مذاکرات پر قائل کرنے کیلئے مقتدر حلقوں کو کردار ادا کرنا پڑا کتنے ہی ایسے مواقع آئے جب عوام کے منتخب نمائندوں کی موجودگی میں کہیں اور سے معاملات کو چلا گیا عوامی نمائندے نجانے کن کاموں میں مصروف تھے کہ وہ اپنے کام ہی بھول گئے پھر یہ الزام بھی ہے کہ کام کرنے کا موقع نہیں ملتا،، عمران خان اگر سیاستدان ہوتے تو غیر سیاسی فیصلوں سے احتراز کرتے انہوں نے اپنی سیاست کو ضد اور انا کی بھینٹ چڑھایا اور غیر جمہوری فیصلے کئے جن کا سب سے زیادہ نقصان خود ان کو اٹھانا پڑا 2018ء سے 2022ء تک عمران خان وزیراعظم رہے مگر ایک کامیاب وزیراعظم بن سکے عدم اعتماد کے بعد حکومت چھن جانے کے بعد قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں’ سڑکوں پر آنے’ احتجاج’ دھرنے’ حکومت مخالف بیانیوں کے بعد جب اتحادی حکومت نے فوری الیکشن کا مطالبہ نہیں مانا تو پنجاب اور KP میں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرا دیں اب دونوں اسمبلیوں میں نگران وزراء اعلیٰ کی تقرری ہو چکی ہے اور نگران کابینہ بننے کے بعد الیکشن کے حوالے سے کام کا آغاز ہو گا عمران خان نے پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو قبول کرنے سے انکار کر کے ایک بار پھر احتجاج کا عندیہ دیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عمران خان نے اپنی پچھلی غلطیوں سے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا اور ان کے دماغ میں دھرنا سیاست آج بھی اسی طرح زندہ ہے جس طرح کہ 2014ء میں تھی کیونکہ بات بات پر وہ احتجاج کی کال دے دیتے ہیں،، آخر عوام کب تک باہر نکلتی رہے گی آخر کار یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا، عمران خان کی ضد ان کی سیاست کیلئے خطرناک ہے اور اب انکی سیاست زوال کی جانب گامزن ہے، تحریک انصاف کو مضبوط بنانے میں جتنا وقت اور حمائت عمران خان کو حاصل رہی وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اب وہ ہاتھ پائوں ماریں یا اسٹیبلشمنٹ کو آواز دیں ان کو حمائت نہیں مل سکے گی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف اور پرویز الٰہی الیکشن کمیشن کا فیصلہ قبول کر لیں اور الیکشن کی تیاری کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ مخالفین بازی لے جائیں۔
41