66

موسمیاتی تبدیلی ترقی پذیر ممالک کیلئے بڑا خطرہ قرار (اداریہ)

گلوبل ہیلتھ سکیورٹی کانفرنس نے موسمیاتی تبدیلی کو دنیا بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں صحت کیلئے بڑا خطرہ قرار دے دیا، دنیا کے ایک ارب بچے موسمیاتی بحران کے باعث ہائی رسک پر ہیں، ماحولیاتی مانیٹرنگ بہت ضروری ہے، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید نقصان اٹھانا کرنا پڑا ہے، تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کو صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کریں۔ ان خیالات کا اظہار نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے عالمی ہیلتھ سکیورٹی سمٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ہیلتھ سکیورٹی موجودہ دور کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے” تاریخ میں پہلی بار 2روزہ گلوبل ہیلتھ سکیورٹی کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد کیا گیا جس میں 70سے زائد ممالک سے شعبہ صحت کے چوٹی کے ماہرین’ وزرائے صحت’ مندوبین اور وفود نے شرکت کی جو خوش آئند ہے دنیا بھر میں صحت کے مسائل کے حل کے مسائل کا حل ضروری ہے وبائی امراض کے تدارک کیلئے اقدامات وقت کی ضرورت ہے، دنیا کا کوئی بھی ملک چاہے وہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو اس کے لیے صحت کے چیلنجوں سے اکیلے نمٹنا ممکن نہیں’ آبادی میں اضافے’ شہروں کی طرف تیزی سے نقل مکانی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجوں سے تنہا نہیں نمٹا جا سکتا’ کوویڈ19′ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے امراض اور 2022ء میں پاکستان میں آنے والے شدید سیلاب جیسے مسائل سے ہمارے شہریوں کی صحت شدید متاثر ہوئی اور ان کے سماجی اور معاشی اثرات مرتب ہوئے پاکستان کو 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا’ ترقی یافتہ ممالک کے پاس کسی بھی ناگہانی آفت سے نمٹنے کیلئے وسائل ہوتے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک ناکافی وسائل کے باعث آفات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ترقی پذیر ممالک میں صحت کا کمزور نظام ان کیلئے مشکلات کا سبب بنتا ہے کوویڈ19 سے ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مشترکہ اقدامات ناگزیر ہیں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تین کروڑ 30لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں 17ہزار جانیں ضائع ہوئیں عالمی ممالک نے امداد کا اعلان کیا مگر وعدہ ایفا نہ ہو سکا جس کے باعث ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کیلئے ضروری اقدامات اٹھانے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی پاکستان میں گلوبل ہیلتھ سکیورٹی کانفرنس کے انعقاد سے دنیا کو پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات سے آگاہی حاصل ہو گی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے عالمی ممالک سے پاکستان کی مدد کرنے کی اپیل کی تھی مگر سوائے چند ممالک کے کسی نے بھی اس حوالے سے اعلان پر عملدرآمد نہیں کیا اگر امداد کا اعلان کرنے والے تمام ممالک امداد فراہم کرنے کیلئے سنجیدگی اختیار کرتے تو پاکستان میں شدید سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی ممکن ہوتی پاکستان نے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے متاثرین سیلاب کی ہر ممکن مدد کی تاہم ناکافی وسائل کے باعث بڑی تعداد میں متاثرہ امداد سے محروم رہے چونکہ موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ تاحال ٹلا نہیں لہٰذا اس حوالے سے پوری دُنیا کے ممالک کے ممالک کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ عالمی ممالک کے ساتھ رابطے قائم رکھیں کیونکہ مشترکہ تحقیق سے وبائی امراض کے علاج کا طریقہ کار تلاش کیا جا سکتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں