بے شک! ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، یہ دنیا دارفانی ہے اور اس حقیقت سے کسی کو انکار ممکن نہیں کہ یہاں پر جو بھی آیا اسے ایک دن یہاں سے کوچ کر جانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے انسان ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو کچھ خاص طریقے سے گزارا ہوتا ہے، اس وجہ سے ان کے اس جہان سے انتقال کر جانے کے بعد ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، ممتاز عالم دین’ درویش صفت شخصیت حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقادر بھی اب ہم میں نہیں رہے مگر ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی اور انہوں نے دعوت وتبلیغ کا جو فریضہ سرانجام دیا وہ چراغ راہ کا کام دیتا رہے گا، آپ نے اپنی ساری زندگی اﷲ تعالیٰ کی رضا کے تابع گزاری اور اتباع رسولۖ کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے رکھا، وہ حقیقی معنوں میں سچے عاشق رسولۖ تھے، عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم وہ عظیم نعمت ہے جو جسے مل جائے اس کے مقدر پر ہر کوئی رشک کرنا نظر آتا ہے، عاشق رسولۖ کو اﷲ تعالیٰ اور حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رضا وخوشنودی حاصل ہوتی ہے، نمازجنازہ میں موجود جید علمائے کرام’ مشائخ عظام اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں کے تاثرات اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقادر حقیقی معنوں میں سچے عاشق رسولۖ تھے، وہ آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے اور جب ان کی عمر ایک سال ہوئی تو ان کی والدہ ماجدہ انتقال کر گئیں اور جب 4سال کے ہوئے تو ان کے والد گرامی کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا، اس طرح انہوں نے یتیمی کے دکھ کو بہت گہرائی کے ساتھ دیکھا اور محسوس کیا، تاہم انہوں نے اپنے بہن بھائیوں اور عزیز واقارب کے ساتھ بہترین تعلقات قائم رکھے اور انہیں زندگی کی آخری سانس تک نبھایا، وہ دوستوں کے دوست تھے اور تعلق کو نبھانے کا فن بخوبی جانتے تھے، راقم 13سال قبل اپنے آبائی علاقہ عبداﷲ پور سے ہجرت کر کے چھوٹی ڈی گرائونڈ آیا، اس وقت سے لیکر مرحوم ومغفور کی زندگی کے آخری لمحات تک ان سے دوستانہ تعلقات قائم رہے، حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقادر نے ہمیشہ راقم کے ہر دکھ کو اپنا دُکھ’ ہر پریشانی کو اپنی پریشانی اور ہر خوشی کو اپنی خوشی سمجھا، یہ دوستی مسجد سے لیکر دونوں گھروں تک پہنچی اور دوستی کے اس رشتے کو توانا رکھنے کیلئے مولانا حافظ عبدالقادر نے آخری دم تک شاندار کردار ادا کیا، یہ بھی بڑی خوش قسمتی تھی کہ انہیں وفا شعار بیوی اور انتہائی تابعدار بچے ملے، موصوف 83سال تک زندگی کی بھرپور بہاریں دیکھنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو گئے، میری خوش بختی ہے کہ میرا ان سے مثالی تعلق قائم رہا، بے شک! اﷲ عزوجل کے محبوب بندوں سے محبت وعقیدت کا تعلق قائم رکھتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلنا بہت بڑی سعادت ہے کیونکہ یہ وہ پاک ہستیاں ہیں کہ جن پر اﷲ عزوجل نے اپنے انعام واکرام کی بارشیں نازل فرماتے ہوتے ہوئے انہیں قرآن پاک میں اپنے ”انعام یافتہ بندے” قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جو اﷲ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اﷲ تعالیٰ نے فضل کیا، یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ’ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں، حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقادر عالم باعمل تھے اور وہ ساری زندگی تبلیغ اسلام میں مصروف عمل رہے، ان کے بیٹوں عبدالمصطفیٰ’ عطاء المصطفیٰ’ عبدالمرتضیٰ’ ضیاء المصطفیٰ’ رضاء المصطفیٰ نے اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ مل کر ان کی خدمت اور تابعداری کا حق ادا کر دیا، ان کی بیٹیوں نے بھی اپنے شوہروں اور بچوں کے ساتھ مل کر ان کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقادر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی چھوٹی ڈی گرائونڈ کے علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے، 55 سال قبل محدث اعظم حضرت مولانا محمد سردار احمد نے درویش صفت انسان حافظ محمد عبدالقادر کی انگلی پکڑ کر انہیں جامع مسجد قادریہ میں مصلہ امامت پر کھڑا کیا، اس طرح حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقادر 55سال تک مذکورہ مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے، وہ بچوں اور بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دیتے رہے’ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں ہے، طالب علموں کے حفظ قرآن کے لیے بھی وہ پیش پیش رہتے تھے اور حفاظ کرام کی دستاربندی کے موقع پر خوشی سے سرشار نظر آتے، وہ حافظ قرآن بھی تھے اور طالب علموں کو حفظ قرآن کرواتے رہے، انہوں نے مثالی زندگی گزاری، کبھی بھی کسی معاملے میں کسی کا بھی احسان نہیں لیا اور ہر موقع پر بڑے وقار’ جرأت’ غیرت اور ایمانداری کا مظاہرہ کیا، یونس ٹائون میں ان کے صاحبزادے حضرت مولانا عطاء المصطفیٰ جامع مسجد غوثیہ بہار مدینہ کے خطیب ہیں، انہوں نے مسجد کے ساتھ واقع ذاتی جگہ پر اپنے والد گرامی حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقادر کو سپردخاک کیا۔ تدفین کے وقت لوگوں نے آخری دیدار کرتے ہوئے دیکھا کہ ان کا چہرہ پُرنور تھا، جسے دیکھنے والے بے ساختہ پکار اُٹھے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا بڑا کرم فضل ہے،
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
