اسلام آباد (بیوروچیف)دنیا میں کورونا وائرس کی وبا کے تدارک کیلئے جب مختلف ملکوں نے لاک ڈاون لگائے تو پاکستان میں مکمل لاک ڈاون کی بجائے سمارٹ لاک ڈاون کی پالیسی اپنائی گئی اور برآمدی شعبے کو کام کرنے کی اجازت حاصل رہی۔اس دوران خطے کے دوسرے ممالک جن میں خاص کر انڈیا اور بنگلہ دیش شامل ہیں، وہاں لاک ڈاون لگنے کی وجہ سے صنعتی کام بند ہوا تو امریکہ اور یورپ میں ہوم ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے برآمدی آرڈرز نے پاکستان کا رخ کیا جس نے پاکستان کے گارمنٹس کے شعبے کو بہت فائدہ پہنچایا۔سیالکوٹ کے ایکسپورٹر حسن احسان بھی ان آرڈرز سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے جب ان کے پاس امریکہ اور یورپ سے ایکسپورٹ آرڈرز کی اتنی زیادہ بھرمار تھی کہ وہ ان آرڈرز کو پورا کرنے کے لیے ورکروں کو اضافی پیسے دینے پر بھی راضی تھے۔ حسن احسان کے مطابق یہ ایکسپورٹ آرڈرز صرف ان کے پاس ہی وافر مقدار میں نہیں تھے بلکہ فیصل آباد، لاہور، ملتان اور کراچی میں ان مصنوعات کے برآمد کنندگان کو یورپ اور امریکہ سے زیادہ آرڈرز مل رہے تھے۔یہ وقت کورونا کا تھا اور پاکستان میں حکومت نے مکمل لاک ڈاون لگانے سے اجتناب کیا تھا اور برآمدی شعبے کو کام کرنے کی اجازت دے رکھی تھی تاہم انڈیا اور بنگلہ دیش میں کورونا وبا کے تدارک کے لیے مکمل لاک ڈاون لگ گیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ امریکہ اور یورپ کے ہوم ٹیسکٹائل اور ریڈی میڈ گارمنٹس کے آرڈرز پاکستان کی جانب آنا شروع ہو گئے تھے جنھوں نے پاکستان کی گارمنٹس کی مجموعی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔تاہم دو سال پہلے بہت زیادہ آرڈرز ملنے پر ورکرز کو اضافی پیسے دے کر کام کروانے والے حسن احسان نے کچھ عرصہ قبل اپنی فیکٹری بند کر دی اور انھیں اپنے ملازمین کو بھی نوکری سے نکالنا پڑا۔
44