اسلام آباد (بیوروچیف) سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل62(ون) (ایف) کے تحت تاحیات نااہلی کالعدم قرار دے دی۔ نوازشریف اور جہانںگیرترین کی تاحیات ناہلی ختم ہو گئی ہے اوراب وہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیاستدانوں کی نااہلی تاحیات نہیں ہوگی اور آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی کی مدت 5 سال ہوگی۔سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے 1ـ6 کے تناسب سے فیصلہ سنایا اور بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے سربراہ جہانگیر ترین 8 فروری کا الیکشن لڑ سکیں گے۔واضح رہے کہ 5 جنوری بروز جمعہ کو سپریم کورٹ ا?ف پاکستان نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مختصر فیصلہ جلد سنائیں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 7 رکنی لارجر بینچ کا حصہ تھے۔عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔کیس کی آخری سماعت میں جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان، اٹارنی جنرل اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیے تھے۔سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ خاکوانی کیس میں سات رکنی بینچ تھا، سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی بینچ تھا، سات رکنی بینچ نے کہا یہ معاملہ لارجر بینچ دیکھے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بعد میں پانچ رکنی بینچ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں اپنا فیصلہ کیسے دیا؟ یاتو ہم کہیں سپریم کورٹ ججز کا احترام کرنا ہے یا کہیں نہیں کرنا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاکوانی کیس میں بھاری نوٹ لکھا، میں اس نوٹ سے اختلاف کر نہیں پا رہا، انہوں نے کہا ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے۔قبل ازیں 11 دسمبر کو میر بادشاہ خان قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کی اگلی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون دانوں کا کہنا ہے کہ نااہلی 62 ون ایف کی بجائے الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دی گئی تو نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہوجائیں گے۔قانون دانوں کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت نہیں لکھی لیکن ماضی میں سپریم کورٹ نے تشریح کرکے اسے تاحیات نااہلی سے تعبیر کیا تھا۔۔
