تحریر… میاں محمد آصف
نامعلوم سے معلوم کا سفر اشتیاق اور تجسس بھرا ہوتا ہے مگر سفر ختم ہونے پر حیرت کے ساتھ سٹی بھی گم ہو جاتی ہے اس مرحلہ پر کرب کا خاتمہ اور درد کا آغاز ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب منزل پر پہنچ کر اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جائے ۔ مجھ پر یہ حقیقت اس وقت آشکار ہوئی جب میرے کانوں میں پولیس لائن پشاور کے زخم خوردہ سپاہیوں کا یہ نعرہ گونجا کہ یہ جو نامعلوم ہے وہ ہم کو معلوم ہے یہ بیانیہ حماقت ہے کہ جرآت یا پھر جرات آمیز حماقت ۔ انالحق والے منصور سے زیادہ اس کے جواب اور انجام سے کون واقف ہوگا – پولیس لائن کی جامع مسجد جہاں نماز ظہر میں دھماکا ہوا ، جس کی شدت اور اثرات نے گتھی سلجھانے والوں کو بھی الجھایا ہوا ہے اور خودکش حملہ ڈران اٹیک کی طرف توجہ مبذول کروا رہا ہے ، چارسال تک میری بھی سجدہ گاہ رہی جہاں کی امام فیملی میرا اپنا گھر انہ تھا – اسی لیے بجلی بن کر مجھ پر گرتی اس خبر کو سن کر میں امام مسجد قاری روح الامین(میری پوتیوں کو قرآن کا سبق پڑھانے والے)کی خیر مانگتا رہا جو مجھے مل بھی گئی مگر ان کے بڑے بھائی نورالامین کی شہادت کی خبر کے ساتھ۔ اس سانحے میں شہید اور زخمی ہونے والے بیشتر افراد بدلتی رتوں کے ہر موسم میں نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہونے والے وہ پکے نمازی تھے جو روزانہ کے اس درس قرآن کا بھی حصہ تھے جو میں اپنی ریٹائرمنٹ کے سال 2016 میں یہاں شروع کراکے آیا تھا کہ پڑھنے والوں کو کتاب حیات میں بیان کردہ نظام زندگی کے خدوخال سے بھی آگاہی ہو ۔ مجھے سنٹرل پولیس آفس میں قائم فارن این جی او ڈیسک کا اپنا انچارج عرفان خان نہیں بھولتا جو ایک توانا, خوش شکل ، اعلی عادات اطوار اور عزم صمیم کا مالک ایسا بانکا اور سجیلا پولیس افسر تھا
جس کا احساس ذمہ داری اور محکمہ کے کام سے وفاداری خدمت بن کر ہر افسر کی آنکھوں کا تارا بن جاتی تھی – اگر سب کی شہادت نے رلایا ہے تو اس کی شہادت کی خبر ابھی تک تڑ پا رہی ہے ۔ سلام ان نمازیوں پر جنہوں نے نماز کے نذرانے کے ساتھ ساتھ جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا ۔ پہرہ دینے والی آنکھ کے جسم پر دوزخ کی آگ حرام ہے اور یہ کام عبادت کے درجے میں ہے سعادت کی اس زندگی کو شہادت کی موت ہی زیبا ہے مگر میں کس کی آستین پر ان کا لہو تلاش کروں اور کس سے پوچھوں کہ فصیل شہر پر لہو کے چھینٹے کیوں ہیں – اللہ کا گھر اللہ کے بندوں کی قربان گاہ کیوں بنایا جارہا ہے ؟ اس بلکتے ہوئے بچے کا کیا قصور ہے جسے اس کا باپ مسجد میں سر بہ سجود ہونے کے لیے موٹر سائیکل کے پاس کھڑا کر کے گیا تھا ۔ جوان بیٹے کی میت وصول کرنے کے لیے لاٹھی ٹیکتے بوڑھے والدین کو کون سہارا دے گا ۔ہے کوئی ان یتیم بچوں اور بیوائوں کے آنسو پونچھنے نے والا جن کے باپ اور شوہر اپنے غربت زدہ گھروں کو چھوڑ کر افق کے اس پار چلے گئے – یہ اس پولیس کے ساتھ ہوا جس نے دہشت گردی کو اگلے مورچوں میں شکست دی ۔ پولیس کا کام عوام کا تحفظ ہے اور آج وہ پولیس لہو لہو ہے جس کے جوان خود کش بمبار کو دیکھ کر آگے بڑھ کر بغل گیر ہوتے تھے اگلے لمحے خود کش بمبار کے ساتھ خود کو اڑا لینے والے یہ بہادر عوام کی جانیں بچانے کے لیے جان دینے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کرتے تھے ۔ میں اس پاگل پن ، حکمت اور سوچ پر ماتم کناں ہوں جو ایک سو سے زائد خاندانوں کے چراغ گل کر گئی ۔ کیا عروس وطن کے اندھیرے اس طرح چھٹ پائیں گے عقل کل کے پاس ہے کوئی جواب ؟ ابھی لفظی غذائوں کے شوقین اور لقموں کے لقمان خیالی قیاس آرائیوں کے گھوڑے دوڑا کر اس بحث سے فارغ نہیں ہو پارہے کہ یہ غیر ملکی سازش تھی کہ معافی یافتہ درانداز پاکستانی طالبان کا استعمال – انتخابات ملتوی کرانے کے پلان کا حصہ ہے یا ہمچومادیگرے نیست کی باز گشت ۔ بے پر کی اڑانے والوں کی وسعت پرواز اپنی جگہ مجھے تو حیرت ہے خیبر پختون خواہ پولیس پر کہ جو لہو لہو ہو کر بھی ادائے فرض کی فکر میں اختیار مانگ رہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی حفاظت کے لیے پہرہ داری، پوچھ گچھ اور تلاشی وغیرہ کے کام کی بلا تفریق اجازت دی جائے – کیا اتنی قربانیاں دے کر بھی پولیس کا یہ مطالبہ نقار خانے میں طوطی کی آواز سمجھا جائے گا یا اس بات کا ادراک کیا جائے گا کہ لاقانونیت کے سمندر میں تحفظ کے جزیرے نہیں رہ سکتے اور اندرونی سلامتی کا تحفظ صرف عوام کی حمایت یافتہ پولیس ہی کر سکتی ہے ۔ آج موقع ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے کے مصداق پولیس میں ہر طرح کی سیاسی وغیر سیاسی مداخلت ختم کر کے قانون کی قوت نافذ ہ کو مضبوط کیا جائے اس معاشرے کے انتقال سے پہلے- اگر سر ہی نہ رہا تو پگڑی کہاں باندھو گے اونچے شملے والو کہ جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو ، تن داغ داغ تو لٹا دیا ۔
33