تحریر…الیاس محمد حسین
اسلام کی آبیاری کے لئے اولیاء کرام کی خدمات کسی سے مخفی نہیں ہیں تفرتوں کے خاتمہ کیلئے اولیاء کرام کی تعلیمات اپنائی جائیں جنہوں نے ہمیشہ آپس میں محبت امن وسلامتی ا ور وحدت کا درس دیا جوکہ ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے حضرت شرف الدین بوعلی قلندر کی بابرکت ہستی بھی اس وقت دھرتی پر جلوہ افروز ہوچکی تھی جب مخدوم شہباز قلندر دنیا سے رشد و ہدایت کے چراغ روشن فرما رہے تھےـ حضرت بوعلی قلندر کا شجرہ حضرت امام ابوحنیفہ سے ملتا ہےـ آپ کے والد حضرت شیخ سالار فخر الدین ہمدان کے رہنے والے تھےـ انہوں نے چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اس کے بعد آپ نے کم عمری میں ہی مروجہ اسلامی علوم بھی حاصل کرلئے تھےـ آپ ہمیشہ اسلامی درس و تدریس میں مشغول رہتے تھےـ آپ کئی سالوں تک مخلوق خدا کو راہ ہدایت دکھاتے رہے اور پھر ایک دن کچھ یوں ہوا کہ آپ میز پر کھڑے ہوئے جوش و خروش کے ساتھ وعظ فرما رہے تھے کہ اچانک ایک فقیر نے دروازے پر کھڑے ہو کر با آواز بلند کہاـ” شرف الدین افسوس ہے کہ تو جس کام کے لئے پیدا کیا گیا تھا اسے بالکل فراموش کئے ہوئے ہےـ کب تک تو ” قال ” میں رہے گاـ ” فقیر کے ان الفاظ نے حضرت شرف الدین بوعلی قلندر کے دل میں ایک اضطراب پیدا کر دیا جس کے بعد آپ عشق الٰہی میں ایسے ڈوبے کہ مستقل مجاہدات و ریاضت میں مشغول ہوگئےـ مشغولیت بھی ایسی کی کہ اپنی تمام کتب غرق آب کردیں اور پھر دنیا فانی سے کنارہ کشی کرکے حضرت شہاب الدین کی کٹیا کے قریب بہنے والے دریا میں جا گھسے اور بارہ برس تک کامل وہیں بے حس و حرکت جذب و استغراق کے عالم میں کھڑے رہےـحتیٰ کہ پانی میں مچھلیوں نے آپ کی پنڈلیوں کے تمام گوشت کھا لیئے مگر آپ کو خبر ہی نہ ہوئیـ بارہ برس کے بعد ایک آوازسنائی دی کہ ” مانگ کیا مانگتا ہےـ ہم نے تیری عبادت و اطاعت قبول کرلی ہےـ” جس پر آپ نے بارگاہ الٰہی ارحم الراحمین میں عرض کیاـ ” میں تجھ سے تجھی کو مانگتا ہوںـ میں یہیں کھڑا کھڑا جان دے دونگاـ تیری ہی محبت میں دم توڑ دونگا ” جس پر حکم ربی ہوا کہ ” اچھا اب پانی سے نکل جا کہ ہمیں تجھ سے بہت سارے کام لینے ہیںـ” جس پر حضرت بو علی قلندر نے عرض کی ! ” میں خود تو نکلونگا نہیں ، تو مجھے خود نکالـ”
اسی وقت ایک روشن چہرے والے بزرگ نہ جانے کہاںسے نمودار ہوئے انہوں نے گود میں اٹھا کر حضرت بو علی قلندر کو دریا کے کنارے پر کھڑا کر دیاـ جس پر آپ جھنجلا اٹھے لیکن اس کے باوجودنرمی سے بولے ” اے محترم آپ کون ہیں ؟ جنہوں نے میری بارہ سالہ محنت ضائع کردیـمیں تو اب منزل مقصود کے قریب تھاـ” جس پر کنارے پر لانے والی ہستی نے فرمایاـ” شرف الدین ” غور سے دیکھو میں حضرت علی بن ابی طالب ہوںـ” تیری محنت ضائع نہیں ہوئی اثاثہ بن گئی ہے وقت کے قلندر حضرت بوعلی نے جو یہ سنا تو حضرت علی کے قدموں میں گر پڑے ! اور کہا مجھے اپنے جیسا بنادیں ۔
اس وقت ندا سے آواز آئی ان جیسا دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا تم ان کی خوشبو ہی پالو تو اسکے مانندتو ہوسکتے ہو اور یہ وہ وقت اور مقام تھا جب حضرت شرف الدین بوعلی کو باب العلم حضرت علی ابن ابی طالب نے نعمت باطنی سے مالا مال فرما دیاـ اب تو حضرت شرف الدین کو گویا سند مل گئی ولایت اور قلندری کی! یہ وہ اعلیٰ و ارفع مناصب ہیں جو ہر کس و ناکس کو نہیں ملتےـ جس کے بعد آپ اسلام کی ترویج میں دن رات مزید مصروف رہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ جوق درجوق اسلام قبول کرتے رہےـجس سے برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد میں مختلف ادوار میں اضافہ ہوتا گیا. . ایک اور واقعہ بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے
حضرت پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے سوات سے سلسلہ اخوند کے کسی خلیفہ کے بارے میں سنا کہ وہ حقہ اور سگریٹ پینے والوں کا جنازہ نہیں پڑھتے . آپ نے فرمایا یہ تو مسلمانوں پر ظلم ہے . لہذا آپ نے سوات جانے کا فیصلہ کیا اور سوات جا کر خلیفہ صاحب اور مقامی علماء کرام سے بات کی جس پر انھوں نے اپنا فتوی واپس لے لیا . پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان خلیفہ صاحب میں خاصیت تھی کہ جس مریض کو ایک بار دیکھ لیتے وہ شفا یاب ہو جاتا . پیر صاحب نے خلیفہ صاحب سے پوچھا کہ یہ نعمت آپکو کہاں سے ملی ؟ تو انھوں نے بتایا کہ ایک بار ہم بہت سے لوگ ایک قافلے کی شکل میں حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک کی زیارت کیلئے بغداد شریف گئے . وہاں ہم روزانہ مزار مبارک جاتے . ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ مجاورین نے جب دروازہ بند کرنے سے پہلے سب کو باہر آ جانے کیلئے آواز دی تو باقی سب لوگ چلے گئے لیکن میں یہ آواز نہ سن سکا . چونکہ میں ایک کونے میں کھڑا تھا اسلئے کوئی مجھے دیکھ بھی نہ سکا اور باہر سے دروازہ بند کر دیا گیا . سب لوگ چلے گئے . مجھے بعد میں پتہ چلا تو میں حیرانہوا لیکن اب کیاہو سکتا تھا . ادب کا تقاضا تھا کہ میں کھڑا رہوں لیکن تھکاوٹ اسقدر تھی کہ کھڑا رہنا مشکل تھا اس کے باوجود میں ساری رات حضرت غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے ادب کی وجہ سے کھڑا رہا . تہجد کا وقت ہو گا کہ مجھے لگا کسی نے میرے کندھوں پر دونوںہاتھ رکھے اور زور سے دبا کر مجھے بٹھا دیا . فجر کے وقت دربار مبارک کا دروازہ کھلا تو میں باہر نکلا . اس وقت سے یہ کیفیت ہے کہ جس مریض پر نگاہ ڈالتا ہوں اللہ پاک کے فضل و کرم سے وہ شفا یاب ہو جاتاہے۔
34