تحریر: ملک بلال لطیف
ایران پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع خطہ کا ایک اہم ملک ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ 909 کلومیٹرکی سرحد کے ساتھ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ عموماً مسلم ممالک ہونے کے باوجوددونوں کے تعلقات میں اتنی گرم جوشی نظر نہیں آتی۔ شاید اس کی وجہ دونوں ممالک کی مختلف قومی ترجیحات ہیں۔ بہر حال 16 جنوری کے بعد سے دونوں خطہ اور بین الاقوامی میڈیا فورمز کی زینت بنے ہوئے ہیں۔دراصل، ایران نے 16 جنوری کے دن پاکستانی بلوچستان کے علاقے پنجگور میں حملہ کرکے ساری دنیا کو حیران کردیا۔ ایران کا دعوی تھا اس نے جیش العدل نامی ایک دہشتگرد تنظیم کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔لیکن پاکستان نے نہ صرف ایران کے اس دعوی کی تردید کی بلکہ 18 جنوری کی صبح اس حملہ کے ردعمل میں بھرپور جوابی کاروائی بھی کی۔ جس کے بعد دنیا کے بہت سے اہم دارالحکومتوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئی۔ گھنٹیاں بجتی بھی کیوں نہ۔ بلاشبہ، دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی علاقائی اور بین الاقوامی امن کو سبو تاژ کر سکتی ہے۔ اسی لیے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو نہ صرف خطہ بلکہ بین الاقوامی تناظر میں بھی بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے دونوں ممالک نظریاتی طور پر بھی اسلامی ہیں اور دونوں کو دہشتگردی جیسے بہت سے مشترکہ چیلنجزکابھی سامنا ہے۔ تو پھر دونوں میں اس قدر دوریہ کیوں؟ یقینا، اس سوال کے جواب تک پہنچنے کے لیے ہمیں دونوں ممالک کے تعلقات کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالنا پڑے گی۔ اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے تعلقات کا آغاز موجودہ صورت حال سے بہت مختلف اور کافی خوشگوار تھا۔ یہاں تک کہ ایران تو وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو سب سے پہلے ایک آزاد ریاست تسلیم کیا۔ اور ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی وہ پہلے لیڈر تھے جو پاکستان کے سرکاری دورہ پرآئے۔ اسی طرح 1965کی جنگ ہویا 1971 کی ایران اپنے برادر ملک کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہا۔سفارتی ہو یا مالی اوراسلحہ ہو یا تیل ایران نے ہر لحاظ سے پاکستان کی بھرپور مدد کی۔اور کشمیر پر تو یہ آج تک پاکستان کے اصولی موقف کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔اور دیکھا جائے کسی دور میں دونوں ممالک بین الاقوامی تناظر میں بھی ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔ دونوں کمیونزم کے خلاف مغرب ممالک کے ایک اہم بلاک CENTO کے رکن تھے۔ مگر پھر دو ایسے واقعات رونما ہوئے جس نے پاک ایران تعلقات کی سمت کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ پہلا واقع ایران کا اسلامی انقلاب اور دوسرا جنرل ضیاء الحق کا پاکستان میں اقتدار میں آنا تھا۔ دراصل، جنرل ضیاء الحق کٹر سنی مسلک کا پیروکار تھا۔ اس نے روس کے افغانستان پر قبضے کے بعد سعودی امداد اور امریکی شہ پر پورے پاکستان میں ہزاروں سنی مسلک کے مدارس قائم کیے۔ جن کا مقصد سنی مسلک کا پاکستان میں غلبہ اور سویت یونین کے خلاف مجاہدین کی پرورش تھی۔ دوسری طرف ایرانی انقلاب جو کہ اہل تشیع رہنمالیڈ کررہے تھے’ اس کی کامیابی کے بعد ایران پورے خطہ میں شعیہ مسلک کا محافظ بن گیا۔بس پھر مسلکوں کی اسی رسہ کشی نے پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کو جنم دیا۔ جس کی بدولت لاکھوں پاکستانی بری طرح متاثر ہوئے۔ دوسرا بڑا تنازعہ دونوں ممالک میں علاقائی اثر ورسوخ بڑھانے کے لئے دوسرے ممالک میں پراکسیز وارز میں ملوث ہونا تھا۔ مثلاً افغانستان میں جہاں پاکستان طالبان کو سپورٹ کر رہا تھا دوسری طرف ایران طالبان مخالف گروپ شمالی اتحاد کے پیچھے کھڑا تھا۔اور پھر جب طالبان افغانستان پر قابض ہوئے تو انہوں نے ہزاروں اہل تشیع مسلک کے لوگوں کا قتل عام کیا’جس سے ایران اور پاکستان میں مزید دراڑیں بڑھ گئیں۔اور تیسری اہم وجہ پاکستان کی سعودیہ اور امریکہ کے ساتھ خاص قربت ہونا ہے۔جو ایران کو کسی حد تک پسند نہیں۔ سعودی عرب ایک سنی اکثریت ملک ہے اور آل سعود ایران کو اپنے اقتدار کے خلاف ایک بڑا خطرہ سمجھتاہے۔اور جب کہ ایران امریکہ اور سعودی گٹھ جور کو خطہ میں اپنے اثرورسوخ کے لیے ایک بڑا چیلنج گردانتا ہے۔ اسی طرح ایران اور بھارت کے بڑھتے تعلقات پاکستان کو شک میں مبتلا کر چکے ہیں ‘ جس کا عملی مظاہرہ کلبھوشن یادیو کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور ایران اسلامی نظریہ اور بہت سے مشترکہ چیلنجز ہونے کے باوجود ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ دہشتگردی صرف ایران کا نہیں پورے خطہ کا مسئلہ ہے۔اور پاکستان تو دہشتگردی سے خطہ میں سب زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان اب تک دہشتگردی کی بدولت لاکھوں جانوں اور اربوں ڈالروں کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ بلکہ اسی سلسلے میں پاکستان اور ایران فروری 2013 میں دہشتگردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا ایک سیکورٹی معاہدہ بھی کر چکے ہیں۔ دراصل حقیقت تو یہ ہے پاکستان اور ایران کی ناقص خارجہ پالیسی نے دونوں ملکوں میں اعتماد کے فقدان کو جنم دے دیا ہے۔حالانکہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس کا باہم بات چیت سے حل نہ تلاش کیا جاسکے۔آج بھی اگر دونوں ممالک مل بیٹھے تو دہشتگردی کے اس ناسور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔ بس دہشتگردی ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے مواقع موجود ہیں جس پر تعاون کرکے دونوں ایک دوسرے کا اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔ مثلاً،دونوں مل کر افغان طالبان کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی سر زمین دہشتگردی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ اور اسی طرح انرجی کی کمی پاکستان کا ایک دیرینہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ایران اس لحاظ سے پاکستان کی کافی حد تک مدد کر سکتا ہے۔ اور رہی بات جنگ کی توویسے بھی دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں کو باخوبی اس بات کا ادراک ہے کہ اگر دونوں ملکوں میں جنگ ہوتی ہے تو اس میں جیت صرف اور صرف اسرائیل، امریکہ اور بھارت کی ہوگی۔ لہذا، ایران جس کے یہاں علامہ اقبال کو لے کربہت عزت و احترام موجود اس کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ پاکستان اسی اقبال کا خواب ہے۔ اوردوسری طرف پاکستان کو بھی چاہیے اپنے محبوب لیڈر قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق اسلامی ممالک بشمول ایران کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کرے۔
