پنجاب میں سیاسی کشمکش اور جوڑتوڑ کے باعث صوبہ کے عوام کی مشکلات میں اضافہ لاہور ہائی کورٹ کے ریمارکس کے بعد گزشتہ رات پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لے لیا’ راجہ بشارت’ اسلم اقبال نے اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کی قرار داد پیش کی پی ٹی آئی کے 5 ارکان اسمبلی فیصل چیمہ’ خرم لغاری’ مومنہ وحید’ دوست محمد مزاری’ چوہدری مسعود اعتماد کے ووٹ کی کارروائی سے لاتعلق رہے چوہدری نثار حسب سابق حزب اختلاف اور حزب اقتدار سے دور رہے پرویز الٰہی کو 186 ووٹ ملے اور وہ وزیراعلیٰ کے عہدہ پر برقرار رہے تحریک انصاف کے کچھ ارکان اسمبلی سے ان کے معاملات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے پرویز الٰہی کو 191 کے بجائے 186 ووٹ ملے اس بار انہیں آزاد رکن اسمبلی بلال اصغر وڑائچ کی سپورٹ بھی حاصل تھی جو قبل ازیں حزب اختلاف کے ساتھ تھے وزیرداخلہ رانا ثناء اﷲ خاں نے پنجاب اسمبلی کے باہر پریس کانفرنس میں کہا کہ گورنر کا آرڈر معطل ہے اس پر کارروائی کیسے ہو سکتی ہے رات کے 12 بجے جعل سازی شروع کر دی گئی پولنگ ایجنٹس مقرر نہیں کئے گئے رولز کو بلڈوز کیا گیا غیر قانونی اجلاس کو تسلیم نہیں کرتے معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے عدالت میں ثبوت پیش کریں گے اجلاس میں جو ارکان غیر حاضر ہیں ان کی ٹریول ہسٹری ہمارے پاس ہے تحریک عدم اعتماد کیلئے پولنگ ایجنٹس مقرر نہ کر کے پرویز الٰہی نے دھاندلی کا بازار گرم کیا ہے،، تحریک انصاف میں پرویز الٰہی کے خلاف دوریاں والی خبریں افواہیں ثابت ہوئیں اور اعتماد کا ووٹ لیتے وقت 186 ارکان صوبائی اسمبلی نے یہ ثابت کر دکھایا کہ پرویز الٰہی ہی پنجاب کے حکمران رہیں گے پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا اور اور اب اپوزیشن کے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہا جبکہ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے تھے کہ پرویز الٰہی پر 24 گھنٹے ارکان کا اعتماد لازم ہے عدالت عالیہ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ کر چکے تھے اعتماد کا ووٹ لیں تو بات ختم’ آپ آفر قبول نہیں کر رہے ہم درخواست کا فیصلہ میرٹ پر کر دیں گے عدالت کا کہنا تھا کہ گورنر کے حکم پر عمل نہیں ہوتا تو پھر اسمبلی کی تحلیل کا کیا ہو گا، راستہ کیسے رکے گا، معاملہ ایک مناسب وقت سے زیادہ چلا گیا ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ کو ڈی نوٹی فائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کرنے کے حکم میں ایک دن کی توسیع کر دی لارجر بنچ میں جسٹس چوہدری محمد اقبال’ جسٹس طارق سلیم شیخ’ جسٹس عاصم حفیظ اور جسٹس مزمل اختر بشیر شامل ہیں عدالت نے آج 12جنوری کو بھی سماعت جاری رکھنے کا اعلان کیا اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد پرویز الٰہی نے کہا کہ (ن) لیگ والوں نے ایک ماہ سے شور کیا ہوا تھا مگر ان کو جو سرپرائز ملا اس پر انہیں اپنی حیثیت کا اندازہ ضرور ہو گیا ہو گا لیگل ٹیم نے محنت کی اور عدالت میں ثابت کیا کہ گورنر کا آرڈر غیر قانونی ہے،، اجلاس جب شروع ہوا تو اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے سپیکر نے کہا کہ جو ارکان پرویز الٰہی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ لابی میں چلے جائیں جس کے بعد ووٹنگ کیلئے 186 ارکان نے پرویز الٰہی پر اعتماد کا اظہار کیا سپیکر نے گنتی کے بعد پرویز الٰہی کی کامیابی کا اعلان کر دیا اور اجلاس 23جنوری دوپہر 2 بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا،، اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد پی ٹی آئی سرخرو تو ہو گئی مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ پرویز الٰہی جو عمران خان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا وعدہ بھی پورا کرتے ہیں؟ پرویز الٰہی کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ عمران کے حکم پر ایک منٹ میں پنجاب اسمبلی توڑ دیں گے مگر یوں لگتا ہے کہ وہ بھی صرف زبانی کلامی ہی دعوے کرتے ہیں عمران کی تعریفیں اپنی جگہ مگر اصل امتحان تو پرویز الٰہی کا اب شروع ہو گا کہ وہ عمران خان کے حکم کو کتنی اہمیت دیتے ہیں آیا وہ اسمبلی کو تحلیل کریں گے یا اب بھی آئیں بائیں شائیں کر کے اپنی کرسی بچانے کیلئے نئی نئی تاویلیں دیں گے؟ پنجاب کے عوام کو سیاسی رسہ کشی نے زچ کر رکھا ہے مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے بے روزگاری کے ہاتھوں عوام عاجز آ چکے ہیں وفاق اور پنجاب میں اقتدار کی کھینچا تانی طویل ہوتی جا رہی ہے آٹا’ گندم اور دیگر اشیاء خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کر کے مافیاز تجوریاں بھر رہے ہیں عوام کی زندگی دن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے سیاستدان تماشا لگائے ہوئے ہیں بے بس عوام تماشا دیکھ رہے ہیں پنجاب جو پاکستان کا اہم ترین صوبہ ہے اس کو کمزور ترین بنایا جا رہا ہے… خدارا سیاستدان سیاسی جنگ میں اتنا آگے نہ چلے جائیں کہ وہ عوام کو ہی روند ڈالیں سیاسی لڑائی لڑنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر عوام ہی نہ رہے تو وہ حکمرانی کس پر کریں گے؟ ہمارے خیال میں سیاستدانوں کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر عوام کی بھلائی معاشی صورتحال کی بہتری اور ملک کی ترقی کیلئے آگے بڑھنا چاہیے۔
36