41

پنجاب میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کی تجویز (اداریہ)

گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف کو 12 اپریل کو الیکشن کرانے کی تجویز دے دی گورنر کا کہنا ہے کہ سب چیزیں دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے،’ وزیراعظم شہباز شریف کا میاں نواز شریف اور آصف زرداری سے ٹیلی فونک رابطہ پنجاب کی سیاسی صورتحال پر گفتگو صوبہ میں آئین کے مطابق چلنے پر اتفاق آئینی وقانونی مشاورت کے تحت حکمت عملی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی سمری پروہی ہو گا جو آئین اور قانون کہتا ہے ہم الیکشن سے گھبرانے والے نہیں اسمبلیاں وقت سے پہلے توڑنا غیر جمہوری اور غیر آئینی قرار دے دیا،، وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء اﷲ تارڑ نے کہا کہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کریں گے” پنجاب کی نئی صورتحال سے ایک بار پھر سیاسی پارہ ہائی ہو چکا ہے پرویز الٰہی نے ایوان سے 186 ارکان کی طرف سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے سمری پر دستخط کر کے گورنر کو بھجوا دی جس کی گورنر نے تصدیق بھی کی ہے جبکہ گورنر نے وزیراعظم کو 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کی تجویز دی ہے (ن) لیگ کی مرکزی قیادت بھی اس تجویز پر غور کر رہی ہے جبکہ پی ڈی ایم قیادت کا اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق چلا جائے اسمبلی کی تحلیل کے بعد گورنر وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کو نگران وزیراعلیٰ کیلئے متفقہ نام دینے کا کہیں گے جس کے بعد نگران وزیراعلیٰ کا فیصلہ ہو گا اگر دونوں طرف سے اتفاق رائے نہ ہو سکا تو پھر سپیکر 6 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں گے اگر پھر بھی کوئی فیصلہ نہ کیا جا سکا تو معاملہ چیف الیکشن کمشنر کے پاس جائے گا اور وہ تجویز کردہ ناموں میں سے جو نام منتخب کریں گے وہی حتمی تصور ہو گا ان تمام مراحل کے دوران موجودہ وزیراعلیٰ ہی اس عہدہ پر رہیں گے نگران وزیراعلیٰ نامزدگی کے بعد اپنی ٹیم تشکیل دیں گے جس کے ساتھ ہی موجودہ وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ سبکدوش ہو جائے گی جس کے بعد تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد ہو گا اور صوبے کے عوام کو ایک بار پھر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا موقع میسر آ جائے گا،، پنجاب میں سیاسی پارہ ہائی ہے معاملات سدھارنے کی بجائے الجھائو کی طرف بڑھ رہے ہیں ملک کے سیاستدانوں نے ایک بار پھر اپنی ضد اور اناپرستی کی بناء پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امور مملکت چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ملک میں گزشتہ 5برسوں سے جاری سیاسی عدم استحکام سیاستدانوں ہی کا پیدا کردہ ہے اسی سیاسی عدم استحکام کی بنا پر ادارے کمزور ہوئے، ریاستی رٹ مذاق بن گئی آئین وقانون موم کی ناک بنا دیئے گئے معیشت تباہی کنارے جا پہنچی ڈالر کی اونچی اڑان نے مقامی کرنسی کو بے توقیر کر کے رکھ دیا درآمدات وبرآمدات میں فاصلہ بڑھنے سے تجارتی خسارہ اور گردشی قرضے حد سے زیادہ بڑھ گئے ایسے میں ملک کے کسی کونے سے ٹیکنوکریٹ کی عبوری حکومت کی تشکیل کی آوازیں بھی آنے لگیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے ہمارے جمہوریت پسند سیاستدان ملکی معاملات کو چلانے سے قاصر ہیںان کی ناکامی ملک کی معیشت کی زبوں حالی سے ہی ظاہر ہے، پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد تحریک انصاف KPK اسمبلی کو بھی تحلیل کرنے کے درپے ہے اور اس طرح دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ملک میں نظام درہم برہم ہو سکتا ہے الیکشن کمیشن کیلئے دشواریاں بڑھ سکتی ہیں،، ملک میں آج تک قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہوتے آئے ہیں تاہم پی ٹی آئی کے مطالبے کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات فوری منعقد نہ ہو سکنے سے دو صوبوں میں اپنی حکومتیں ختم کرتے ہوئے ازخود نئے انتخابات کا اعلان کرنا خود تحریک انصاف کیلئے ایک چیلنج دکھائی دیتا ہے ملک میں دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے نیا آئینی بحران پیدا ہو گا اور یہ وقت حکومت او اپوزیشن کے مل بیٹھنے کا ہے کہ مل کر اس بحران کا حل نکالا جائے کیونکہ بار بار الیکشن کرانے پر اربوں روپے کے اضافی اخراجات کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا،، بدقسمتی سے اس وقت جو آئینی ومعاشی بحران ملک میں ہے اس میں زیادہ تر ہاتھ پی ٹی آئی کا ہے پنجاب اسمبلی کے حوالے سے تحریک انصاف کے ڈرامے کو سیاسی کامیابی سے زیادہ عمران خان کے ایجنڈے کی پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے جس کا مقصد سیاسی استحکام کو پاکستان سے دور رکھنا ہے تاہم معاشی بحران کا عمل ناممکن بنا رہے وطن عزیز کی معیشت اور اس کے عالمی وقار کو اس کے روایتی دشمنوں اور دہشت گردوں نے اس قدر نقصان نہیں پہنچایا جتنا عمران خان کے پونے چار سالہ دور نے پہنچایا ہے اس پورے عرصہ میں تحریک انصاف کے سربراہ نے پوری کوششش کی کہ ملک کسی طرح دیوالیہ ہو جائے پونے چار سال کے اقتدار کی لائی تباہی کو موجدہ چند ماہ کی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر عوام کو اس کے خلاف بھڑکا سڑکوں پر لایا جائے مگر وزیراعظم نے اپنی تمام تر کوشش ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے پر مرکوز رکھی تاہم سیاسی عدم استحکام پر قابو پانے کیلئے ان کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکیں اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کیا جائے ملک میں مزید تماشے نہ لگائے جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں