تحریر ۔ شفقت اللہ مشتاق
ایک وقت تھا جب پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا بہت ہی مشکل کام تھا۔ اکثر دیہاتوں میں صرف ایک ایک پرائمری سکول تھا، چار پانچ دیہاتوں کے لئے ایک مڈل سکول، دس میل کے فاصلے پر ایک ہائی سکول اور ڈویژنل ہیڈکوارٹر پر ڈگری کالج اور یونیورسٹی تو صرف لاہور میں تھی اور اس کا نام تھا پنجاب یونیورسٹی۔ اس یونیورسٹی کا معیار تعلیم اتنا بلند تھا کہ طالبعلم بی اے پاس کرنے کے لئے درباروں پر منتیں مانتے تھے اور پاس ہونے کی صورت میں ان کے والدین مسجدوں کے دیوں میں سرسوں کا تیل ڈال کر خدا کا شکر ادا کرتے تھے۔تاہم کچھ طالب علموں کو امتحان پاس کرنے کے لئے ممتحن کو کچھ دیر کے لئے یا تو اغوا کرنا پڑتا تھا یا پھر گنے،گڑ اور شکر دے کر بھی کام چلایا جا سکتا تھا بہرحال پاس ہونے والے واقعی چند چنے ہوئے دانے ہوتے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب نہانے کے لئے گیزر تو دور کی بات تھی صابن کے بھی پیسے نہ ہوتے تھے۔ واشنگ مشین ابھی انگریزوں کے ذہنوں میں گھوم پھر رہی تھی روزانہ کپڑے کہاں سے دھلوانے تھے”شیراں دیے منہ”دھونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ ویسے بھی پی ٹی آئی ماسٹر سکول کے گیٹ پر ڈنڈا لے کر چوکس کھڑا ہوتا تھا اور ہر آنے والے کو پانچ سات لگا کر کپڑے جھاڑ دیتا تھا۔ استادوں کی بھی کئی اقسام تھیں کچھ تو بچوں کی حالت پر رحم کھاتے تھے اور سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگا کر گہری سوچ میں گم ہو جاتے تھے۔ کچھ چوہدری قسم کے استاد بھی ہوتے تھے جو اپنی چوہدراہٹ برقرار رکھنے کے لئے شوں شاں رکھتے تھے کبھی کبھی غصہ کھا جاتے اور شرارتی قسم کے بچوں کی چھتر پریڈ وقت کی اہم ضرورت سمجھتے تھے۔ ایسے استاد بھی تھے جو اپنے کام میں مصروف ہوتے تھے ہر وقت کتاب وہ اور طالب علم۔ ان کے پاس کوئی وقت نہیں تھا اور وہ نااہل اور نالائق بچوں پر وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ ذہین اور لائق بچوں کے پاس غلطی کی گنجائش نہ ہوتی تھی۔ دوسری صورت میں تشدد اور وہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد تشدد۔ تعلیم سے محبت کرنے والے والدین کا کہنا تھا ” ہڈیاں ہماری اور گوشت استاد کا”۔ ایسے ماحول میں ذرہ ذر ہورہا تھا اور سونا کندن بن رہا تھا۔ قوم کے مستقبل کے حکمران اعصابی طور پر مضبوط ہورہے تھے۔ اف اللہ ہم اعصابی طور پر آج کتنے مضبوط ہوگئے ہیں ہمیں کچھ محسوس ہی نہیں ہورہا ہے۔پتھر لکڑ ہر شے ہضم اور ہم نہاتے دھوتے۔
پھر زمانے نے کروٹ بدلی۔ مار نہیں پیار کا دور آیا۔ استادوں کی انکوائریاں کھلیں، پیشیاں ہوئیں بلکہ استاد پہلے حوالات میں اور پھر عدالت میں اور پھر عدالتوں کی پیشیاں بھگت بھگت کر استاد تھک گیا اور تھک ہار کر کاروباری دنیا میں چلاگیا۔ پیسے کی بات کرنے لگا۔ ٹیوشن وقت کی اہم ضرورت بن گئی۔ چپے چپے پر سکول کھل گئے کالج بن گئے بلکہ یونیورسٹیاں کھمبیوں کی طرح پھوٹ پڑیں۔ ہر طرف تعلیمی اداروں کے بورڈ ہی بورڈ آویزاں کردیئے گئے۔ مفت تعلیم والے ادارے بند اور علم کی دنیا میں کمرشلائیزیشن متعارف ہوگئی۔ دھڑا دھڑ ڈگریاں اور اوپر سے بیروزگاری اور مہنگائی کا طوفان بدتمیزی۔ ایسی صورتحال میں دماغ جواب دے جاتا ہے اور مایوسی، غیریقینی اور افراتفری جنم لیتی ہے۔ بچے اور ان پر کتابوں کا بوجھ، فیسوں کا بوجھ، مہنگائی کا بوجھ اور پھر مخدوش مستقبل کے بارے میں غیر ضروری خوف کا احساس۔ نتیجہ ڈپریشن اور متعدی امراض۔ ہم سب کو کیا ہوگیا ہے۔ ہم کواستاد کو جیل بھجوانے کی سزا تو نہیں مل رہی ہے۔ ردعمل تو ہر عمل کا ہوتا ہی ہے۔ استاد جب ڈنڈے سے محروم ہوگا تو وہ بھی آپ کو کوالٹی ایجوکیشن سے محروم کردے گا۔ لمبی بحث ہے اور اس سارے منظر نامے کے بیشمار عوامل ہیں۔ ان کے بارے میں غوروفکر کرنا اور پھر باقاعدہ معاملات کو بہتر بنانے کے لئے منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔
گذشتہ دنوں پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ملاقات ہوئی۔ ویسے پہلے بھی ان سے متعدد بار ملاقاتیں رہیں لیکن کبھی خالصتاً مذکورہ کمیشن پر کھل کر بات نہ ہوسکی تھی۔ اس وقت اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والے اداروں پرتوجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں جامعات بہت بن چکی ہیں اور مزید بننے جارہی ہیں۔ عددی لحاظ سے اداروں کی کثرت ضروری ہے لیکن ان کا ہماری عملی زندگی میں فعال کردار کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یقینا جوں جوں تعلیم عام ہوگی ہماری بحیثیت قوم سوچ میں تبدیلی آئیگی۔ یہ امر بھی ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیئے کہ آج سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔ ہمارا زیادہ تر انحصار جنرل ایجوکیشن پر ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپلائیڈ ریسرچ کا رجحان نہیں پیدا ہو سکا ہے اور پالیسی ساز بھی محض ترقی ترقی کا ساز بجاتے رہے اور انہوں نے جدت سے کام لینے کی بجائے ادارے بنا کر ان اداروں پر اپنے پیارے بٹھانے میں ہی ترقی کا راز سمجھا ہے۔ یونیورسٹی دو لحاظ سے بڑا ہی اہم ادارہ ہوتا ہے۔ اول نوجوان نسل کی تعلیم وتربیت اور دوئم تحقیق کی بدولت ملک وقوم کو جدت کی راہوں پر ڈالنا۔ ان دونوں کاموں کے لئے کوالٹی ایجوکیشن کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کرسکا ہے اور اب الزام تراشیاں اور بس الزام تراشیاں۔ بیوروکریسی کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تدریسی شعبہ کی تحقیق و جستجو کے میدان میں مکمل ناکامی۔ سوائے اعداد وشمار جو کہ بین الاقوامی سطح پر کسی شمار قطار میں نہیں آتے۔ بات کو آگے بڑھانے سے بہتر ہے اپنی ناکامی کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اب بھی حدود و قیود کا تعین کر لیا جائے اور یہ طے ہو جائے کس نے کیا کرنا ہے اور آگے کیسے بڑھنا ہے۔ ڈاکٹر شاہد منیر ایک متحرک ریسرچ سکالر ہیں اور ان کے ہاں درد بھی ہے بصیرت بھی ہے اور کام کرنے کا جذبہ اور شوق بھی ہے۔ اس وقت وہ ایک ایسے ادارے کے سربراہ ہیں جس کا کام ہائر ایجوکیشن کی کوالٹی کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے پرائیویٹ اور پبلک یونیورسٹیز کو قواعد کے مطابق قائم کرنے اور ان کی ورکنگ کو ضوابط کے تحت چلانے کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اساتذہ کی کپیسٹی بلڈنگ بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ جامعات کا پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے اداروں سے ان کی ریسرچ کی نوعیت کے لحاظ سے ناطہ جوڑنا بھی اس ادارہ کی ذمہ داری ہے۔ یونیورسٹیز کے جگہ جگہ قیام سے کالجز اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ ان کی بھی بدلتے حالات میں تنظیم نو کی ضرورت ہے اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس ایک منصوبہ ہے جس کے تحت سارے کالج جامعات کے انسٹیٹیوٹ بن جائینگے اور ان کا انتظامی ڈھانچہ بہت بہتر ہو جائیگا اور یہ ادارے ملکی ترقی میں ایک بار پھر اپنا فعال کردار ادا کرنا شروع کردینگے۔ پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن کو صوبائی اداروں کے لئے دل کھول کر فنڈنگ کرنا چاہیئے تاکہ اٹھارویں ترمیم کے ثمرات صوبوں تک پہنچ سکیں۔ صوبائی ایجوکیشن کمیشن کو علم کی ترقی وترویج کے لئے مزید مینڈیٹ دینا چاہیئے۔اور ادارہ مذکور کا ہیومن ریسورس اور انفراسٹرکچر اس کے کام کی نوعیت کے حساب سے بڑھانا ہوگا۔ منصوبہ بندی اور پھر بروقت عملدرآمد ہمارے سارے مسئلوں کا حل ہے۔کاش ہمارے ملک میں اداروں کو کام کرنے کا موقعہ دیا جائے اور اداروں کے منتظمین بھی قومی جذبے سے سرشار ہو کر کام کرنا شروع کردیں تو آج بھی ہم اپنے آپ کو مایوسیوں کے اندھیروں سے نکال سکتے ہیں۔
