38

پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ (اداریہ)

عوام پر حکومت کا ایک اور وار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 22 روپے تک کا اضافہ کر دیا گیا قیمت میں اضافہ کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 272 روپے ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 280 روپے لائٹ ڈیزل کی 196 روپے 68 پیسے مٹی کے تیل کی فی لیٹر قیمت 202 روپے 73 پیسے ہو گئی نئی قیمتوں کا اطلاق فوری طور پر نافذ العمل ہو گیا ہے وزارت خزانہ نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا،، پی ڈی ایم کی حکومت اپریل 2022 سے 15 فروری 2023ء تک پٹرول کی قیمتوں میں آٹھ بار اضافہ کر چکی ہے مئی 2022ء میں پٹرول کی قیمت میں 30 روپے 3 جون 2022ء کو 30 روپے اضافہ 15 جون 2022ء کو مزید 24 روپے اضافہ کیا گیا یکم جولائی 2022ء کو اضافہ 15جولائی 2022ء کو 18 روپے 50 پیسے کمی کے بعد 16 اگست 2022ء کو 6 روپے 72پیسے اضافہ یکم ستمبر 2022ء کو پھر ایک روپیہ 45 پیسے اضافہ کیا یکم اکتوبر 2022ء کو پٹرول کی قیمت میں 12 روپے 68 پیسے کمی کی گئی 16دسمبر کو بھی 10 روپے کمی کے بعد نئے سال 2023ء کے پہلے ماہ جنوری میں 35 روپے اضافہ کیا گیا اور ماہ فروری میں ایک بار پھر 22 روپے کا اضافہ کیا پٹرول کی قیمت میں اضافہ نے عوام کیلئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں حکومتی فیصلے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے پہلے ہی انٹرسٹی اور بین الاضلاعی سفر کیلئے کرایوں میں اضافہ سے عوام پریشان تھے اب ان کی پریشانی میں مزید اضافہ کر کے ان کی زندگیاں اجیرن بنائی جا رہی ہیں مہنگائی اپنے عروج پر ہے اب رہی سہی کسر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کر کے مہنگائی کو آسمان تک پہنچانے کا سامان کر دیا گیا ہے غریب عوام کیلئے روٹی کا حصول محال ہو چکا ہے ملک آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل میں پھنسا ہے عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر عوام پر ٹیکس عائد کئے جا رہے ہیں عام آدمی مزید مہنگائی کے طوفان کی آمد سے آنے والی مشکلات کے خوف میں مبتلا ہے بجلی’ گیس پٹرول کے نرخوں میں اضافہ بے روزگاری بدامنی نے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے اس گھمبیر صورتحال سے نکلنے کیلئے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو آگے آنا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان ملک کیلئے سوچنے کو تیار نہیں حکومت اپوزیشن کے خلاف اور اپوزیشن حکومت کی راہ میں کاٹنے بچھا رہی ہے ملک میں زرمبادلہ کی صورتحال تشویشناک ہے انڈسٹری جمود کا شکار ہے کم آمدنی والوں پر زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے روزانہ اُجرت پر کام کرنے والوں کے گھروں میں فاقے چل رہے ہیں تنخواہ دار طبقہ کی تنخواہیں موجودہ حالات میں مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر غریب کہاں جائیں کس سے فریاد کریں کوئی سننے والا ہی نہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں