مہنگائی کے ستائے عوام کیلئے بُری خبر’ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا، وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 13 روپے 65پیسے اضافہ کی منظوری دی گئی ہے جس کے بعد پٹرول کی فی لیٹر قیمت 272 روپے 89 پیسے ہو گئی ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 2 روپے 75 پیسے اضافے کی منظوری دی گئی ہے ڈیزل کی نئی قیمت فی لیٹر 278 روپے 96پیسے ہو گئی ہے 24پیسے کمی کے بعد مٹی کے تیل کی قیمت 186 روپے 62پیسے مقرر کی گئی ہے 2روپے 3پیسے اضافے سے لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 166روپے 86پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کی نگران وزیراعظم نے منظوری دے دی ہے، پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کی خبر ہی عوام کیلئے کیا کم تھی؟ کہ اوگرا نے بھی ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے نوٹیفکیشن جاری کر دیا گھریلو سلنڈر مہنگا ہو کر 3040 روپے کا ہو گیا ملک میں جب بھی پٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کے نرخوں میں اضافہ ہوا مہنگائی کا طوفان آیا گھریلو سلنڈر اور تندور وبیکریز پر استعمال کئے جانے والے سلنڈر مہنگے ملنے کے بعد بیکری کی آئٹمز’ روٹی نان بھی مہنگے ہو جاتے ہیں جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے انٹرسٹی کرایوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر شے کے نرخ بڑھ جاتے ہیں مہنگائی کی ماری عوام میں پہلے ہی سکت نہیں اس پر مزید مہنگائی ہونے سے عام آدمی کی زندگی دشوار ہو جائے گی آٹے’ چینی’ دالوں’ گوشت’ انڈوں سمیت سبزیوں’ پھلوں کے نرخوں میں بھی اضافہ ہو گا پہلے ہی سبزیاں پھل گوشت دالیں مرغی کا گوشت عوام کی پہنچ سے دور ہے مہنگائی میں اضافہ سے ایک بار پھر عوام کیلئے اشیائے خوردونوش کا حصول مشکل ہو جائے گا، ملک میں مہنگائی کا دبائو بدستور برقرار ہے، نگران حکومتیں مہنگائی کے آگے بند نہیں باندھ سکیں، نگران حکومت کے دور میں عوام پر بجلی اور گیس کے بم گرائے گئے، نیپرا نے ایک بار پھر بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھا دی ہے 5.62 روپے فی یونٹ اضافہ سے کمرشل اور گھریلو صارفین بجلی کا بجٹ بُری طرح متاثر ہو گا بجلی صارفین پر 49ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، ملک میں چند ہزار اشرافیہ کروڑوں افراد کے مقابلے میں اتنے زیادہ پاور فل ہیں کہ حکمران بھی ان کے آگے بے بس ہیں جب بھی اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا جاتا ہے تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا غریب عوام کے ٹیکسوں سے مراعات حاصل کرنے والا اشرافیہ زندگی انجوائے کرتا رہتا ہے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی جو ٹیکسوں کی صورت میں اکٹھی ہوتی ہے وہ اشرافیہ کی مراعات میں خرچ ہو جاتی ہے اور جب بھی خزانے میں کمی ہوتی ہے تو حکومت کبھی بجلی کبھی گیس اور کبھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کر کے عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکلوا لیتی ہے بجلی کمپنیاں محکمہ کے افسران اور اہلکاروں کو مفت بجلی فراہم کرتی ہیں گیس کمپنیاں اپنے افسران واہلکاروں کو مفت گیس فراہم کرتی ہیں جبکہ افسران اور اہلکاران بھاری تنخواہیں الگ لیتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک عام مزدور کم آمدنی کے باوجود بجلی گیس کے بھاری بل ادا کر سکتا ہے تو بھاری تنخواہیں وصول کرنے والے افسران واہلکاران بجلی گیس کے بل کیوں ادا نہیں کرتے اشرافیہ کو مفت پٹرول’ مفت بجلی’ مفت گیس سمیت دیگر مراعات فراہم کی جا رہی ہیں مگر کوئی بھی اس مسئلہ کا حل کرنے کو تیار نہیں عوام پر مہنگائی کا بوجھ لادا جا رہا ہے ایک عرصہ سے غریب عوام کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کو مسائل کے گرداب سے نکال کر ان پر مہنگائی کا بوجھ کم کرے اور ان کو ریلیف دے عام انتخابات سر پر ہیں خدا کرے الیکشن میں ایسی سیاسی قیادت سامنے آئے جو ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے عوام کو ریلیف فراہم کرے اگر ایسا ہو جائے تو عوام کی خوشحالی ممکن ہو سکتی ہے۔
