پاکستان ڈیموکریٹک کے مشورے پر پیپلزپارٹی نے ضمنی الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کر لیا ضمنی الیکشن میں حصہ نہ لینے کا باضابطہ اعلان پی پی پی قیادت کرے گی پارلیمانی بورڈ کا ویڈیو لنک اجلاس بلاول بھٹو کے زیرصدارت ہوا راجہ پرویز اشرف’ نیئر بخاری کے علاوہ فرحت اﷲ بابر مخدوم احمد محمود فریال تالپور نے بھی شرکت کی قومی اسمبلی کے خالی حلقوں میں الیکشن کے مراحل شروع ہو چکے ہیں کاغذات نامزدگی جانچ پڑتال اور الیکشن تاریخ دی جا چکی ہے مگر اس ضمنی الیکشن میں وہ گہما گہمی نظر نہیں آ رہی جو الیکشن کا خاصا ہے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ضمنی الیکشن میں اپنے امیدوار اتارنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے میں کوئی زیادہ عرصہ نہیں رہ گیا لہٰذا ہر سیاسی جماعت اس سوچ بچار میں ہے کہ اپنے امیدواروں کو بلاوجہ تھکانے سے کیا فائدہ سیاسی توانائیاں صرف کر کے چند ماہ کیلئے رکن اسمبلی بننے سے بہتر ہے کہ الیکشن میں حصہ نہ لیا جائے جبکہ تحریک انصاف جس کے ممبران کے استعفے منظور ہونے سے یہ نشستیں خالی ہوئی ہیں وہ ضرور سرگرم ہیں تاہم ان میں بھی اکثریت ایسے سیاستدانوں کی ہے جو خود میدان میں اترنے کے بجائے اپنے قریبی عزیزوں کو میدان میں اتارنے کیلئے حکمت عملی تیار کر چکے ہیں اور اس دلچسپ صورتحال میں الیکشن کا ماحول وہ نہیں بن رہا جس کی توقع کی جا رہی تھی پی ڈی ایم کے اصرار پر پیپلزپارٹی نے بھی الیکشن نہ لڑنے کا عندیہ دیا ہے جس کا اعلان پارٹی قیادت کرے گی،، ملکی سیاست میں ہیجان کی سی کیفیت ہے سیاست کے بدلتے ہوئے تیور پتہ دے رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے تین بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) پی پی پی پی ٹی آئی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور ایک دوسرے کیلئے سخت ترین متحارب فریق کا کردار ادا کر رہی ہیں محسوس ہو رہا ہے کہ اس سال شائد بڑے فیصلے ہو جائیں جو سیاست کا نقشہ ہی بدل ڈالیں عمران خان جب سے سیاست سے باہر ہوئے ہیں انہوں نے ایک دن بھی چین کا نہیں گزارا ان کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے موجودہ اتحادی حکومت کو گھر بھیج دیا جائے وہ بھرپور طریقے سے اس کا جتن کر رہے ہیں مقصد حاصل کرنے کیلئے بھرپور طریقے سے تحریک بھی چلائے ہوئے ہیں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد اگرچہ آئین کی رو سے 90 روز کے اندر نئے انتخابات ہو جائیں گے حکومت کو مجبوراً قومی اسمبلی میں تحلیل کرنی پڑے گی مگر ایسا نہیں ہوا نہ دور دور تک الیکشن ہوتے نظر آ رہے ہیں پرویز الٰہی نے بڑی مخالفت کی تھی کہ پنجاب اسمبلی کو نہ توڑا جائے اسمبلی ٹوٹنے سے بڑے مسائل پیدا ہوں گے مگر عمران خان نہیں مانے عمران خان کو توقع تھی کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ملک میں جنرل الیکشن کی راہ ہموار ہو جائے گی مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا اور ابھی تک ہو رہا ہے دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت سے باہر نکلنے کے باوجود عمران کی گھن گرج میں کوئی کمی نہیں آئی انہوں نے اس وقت کئی محاذ کھول دیئے ہیں اسٹیبلشمنٹ ہو یا متحارب سیاسی جماعتیں سب ان کا ہدف اور ان کے نشانے پر ہیں عمران کو کئی عدالتوں میں بہت سے کیسز کا سامنا ہے عمران اور پی ٹی آئی لیڈرشپ کو خوف ہے کہ عمران جن دو کیسوں میں نااہل ہو سکتے ہیں وہ بڑے مضبوط کیس ہیں اگر وہ نااہل ہو گئے تو درپردہ ہی سہی سیاست میں ان کا کردار اہم رہے گا عمران خان متعدد بار یہ ذکر کر چکے ہیں کہ انہیں نااہل کر دیا جائے گا اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے اور ریمارکس میں نااہلی کو آئین سے ماورا قرار دیا ہے ایسا ہے تو عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کو بھی نظرانداز کرنا ہو گا ورنہ سیاست میں ایک بُری روایت چل نکلے گی نواز شریف کو بھی ریلیف مل سکتا ہے، ہر سیاسی پارٹی کا اپنا ایک منشور ضرور ہے جس میں عوام کو بہتر مستقبل کے خواب دکھا کر انہیں ووٹ دینے کیلئے راغب کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی سے جو کچھ سیاست میں ہو رہا ہے اس سے عوام سمجھنے لگے ہیں کہ سیاست دان صرف عوام کو استعمال کرتے ہیں اور اقتدار میں آ کر عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اس وقت ہماری سیاست جس افراتفری کا شکار ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کے حصار میں گم ہیں اور کسی دوسری جماعت یا گروپ کی بات سننے کو تیار ہی نہیں اور یہ ہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں ہمارے سیاستدان کیوں نہیں سمجھتے کہ سیاست میں ضابطہ اخلاق ضروری ہے سیاسی ضابطہ اخلاق ایک بار طے ہو جائے تو اس پر عملدرآمد کا آئینی طریقہ کار بھی وضع کیا جانا چاہیے تاکہ خلاف ورزی کی صورت میں کسی کے خلاف کارروائی بھی کی جا سکے اور قوم کے سامنے تمام معاملات شفاف انداز میں نظر آئیں مہذب جمہوری ملکوں میں کہیں تحریری اور کہیں غیر تحریری روایات موجود ہیں جن کی بدولت وہاں وہ سیاسی دھماچوکڑی نظر نہیں آتی جو پاکستان میں شروع سے معمول بن چکی ہے 75 برس کے بعد بھی ہم ایک قوم نہیں بن سکے اور قرضوں پر گزارا کر رہے ہیں جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔
50