بارہ روز گزرنے کے باوجود اس بات کا دل کو یقین نہیں آ رہا کہ ہنستے مسکراتے چہرے کیساتھ دوسروں کو خوشیاں فراہم کرنے والا رضوان ہندل ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے، ہر وقت اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ نظروں کے سامنے محسوس ہوتا ہے اور اس کا بڑے پیار سے ”سرجی” کہنا کانوں میں گونجتا رہتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے اسے بے شمار خوبیوں سے نواز رکھا تھا جس میں مہمان نوازی اور حسن اخلاق جیسے اوصاف بھی شامل ہیں، مہمان نوازی اتنا اچھا کام ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے مہمان کی آمد کے منتظر رہتے ہیں، اسلامی تاریخ مہمان نوازی کے واقعات سے بھری پڑی ہے،ہمارے اسلاف نے ہمیشہ مہمان نوازی کو اپنی اولین ترجیح بنائے رکھا ہے ،دوسروں کو کھانا اورچائے پیش کرکے جو خوشی حاصل ہوتی ہے اُس سے ہر خاص و عام آگاہ ہے،آج بھی بے شمار لوگ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر عمل پیرا ہوکر مہمان نوازی کا فریضہ جس احسن انداز سے سرانجام دے رہے ہیںوہ قابل دید ہے۔ میرا بیٹے جیسا عزیز رضوان ہندل بھی مہمان نوازی کا دلدادہ تھا اور وہ دوسروں کو کھانا کھلانے میں بڑی خوشی محسوس کرتا، بالخصوص بڑی چاہت کے ساتھ چائے پلانا اس کی وہ خوبی تھی جسے اس کے ملنے والے کبھی بھلا نہ سکیں گے، اس نے ”ڈیلی بزنس رپورٹ” میں سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا، اس ادارہ میں ورکروں کے لیے صبح اور دوپہر کو چائے کا اہتمام ہوتا ہے اور وہ چائے آنے کا منتظر نظر آتا، چائے کے اس شوقین نے ملنے کیلئے آنیوالے ہر خاص وعام کو کبھی چائے پلائے بغیر جانے نہیں دیا اور چائے پلانے کیساتھ ساتھ وہ جو چاہتیں بانٹتا تھا اس کا تذکرہ ہر کوئی کرتا نظر آتا ہے، ہمارے اسلاف نے ہمیشہ مہمان نوازی کو اپنا شعار بنائے رکھا، میرے والد محترم ملک محمد شریف (مرحوم ومغفور) نے بھی ہمیشہ مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ آنیوالا مہمان کھانا کھائے بغیر نہ جائے اور اگر کوئی جلدی جانے پر اصرار کرتا تو وہ چائے پی کر ہی جاتا تھا، بے شک! ایسے لوگوں کی چائے چاہتوں سے لبریز ہوتی ہے جو ملنے والے کو خوشیوں سے سرشار کر دیتی ہے، اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے بے شمار صلاحیتیں بخشی ہیں، انسان جب کوئی کام کرنے کی ٹھان لے تو وہ کامیابیوں کے زینے چڑھتا چلا جاتا ہے، رضوان ہندل نے بھی جرأت وہمت سے کام لیا اور کامیابیاں اس کا مقدر بنتی گئیں، دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی’ محبت والفت اور مروت کے ساتھ پیش آنا اس کا شیوہ رہا، کسی بھی انسان کی طبیعت اور عادت اچھی ہو گی تو کہا جائے گا کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں، جو شخص حسن اخلاق کا پیکر بن جائے تو وہ ان لوگوں سے بھی جو اس کے ساتھ برا سلوک کریں اچھا سلوک کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے یہ خوبی رضوان ہندل کو بھی عطا فرمائی تھی کہ وہ لوگوں کے اچھے برے سلوک کی پرواہ کیے بغیر بلاتمیز ہر کسی کے کام آتا رہا، یہ دنیا ایک دارفانی ہے اور یہاں پر جو کوئی بھی آیا اسے ایک دن یہاں سے کوچ کر جاتا ہے، اس جہان میں اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اور جو لوگ دوسروں کے کام آنا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، رضوان ہندل نے بھی دوسروں کے کام آنا اپنی ترجیح بنائے رکھا، ”ڈیلی بزنس رپورٹ” میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے دوران اس نے ہمیشہ فرض شناسی سے کام لیا اور اگر کبھی بروقت نہ پہنچا تو پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ”سرجی” ہسپتال میں ایک مریض اور اس کے لواحقین بے یارومددگار نظر آئے، مجھ سے ان کی بے بسی دیکھی نہ گئی اور ان سے درپیش مسئلہ پوچھ کر اسے حل کروایا، مجھے اس کی ایسی نیکیوں کا پتہ چلتا تو میرا دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا، رضوان ہندل خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار شخصیت تھے جنہوں نے دکھی اور بے سہارا انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا، یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ چائے ہو، زر ہو، زمین ہو، احباب ہوں، بیوی بچے ہوں، کاروبار ہو یا کچھ اور۔۔سب نے ایک دن ادھر ہی رہ جانا ہے اور جو باقی رہتا ہے وہ انسان کا کردار ہوتا ہے جو لوگ صاحب کردار ہوں وہ ہمیشہ چاہتیں بانٹتے نظر آتے ہیں، رضوان ہندل اپنے حسن اخلاق کے باعث اپنے ملنے والوں کو بھلائے نہیں بھول رہے، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
20