تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
جنوری کا مہینہ اتوار کا دن میں پورے ہفتے کے ایسے کام جو دفتری اوقات کی وجہ سے نہ کر سکا آج وہ سب کر نے کے موڈ میں تھا کہ آج کا دن صرف اور صرف ذاتی گھریلو کاموں پر صرف ہو گا.لیکن پھر ایسا کام آن پڑا کہ گھر کے کام کسی دوسرے دن پر چھوڑ دئیے مجھے اچانک مقدس حیات بیٹی کا فون آیا کہ انکل رخسانہ حیات مرحومہ کی بیٹی ہوں وہ چند ماہ پہلے اللہ کو پیاری ہو گئیں اب ان کے کام میں نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہیں کمزور ناسمجھ ہوں کیا آپ میری اماں کی طرح میری راہنمائی کریں گے تاکہ میری ماں کی روح قبر میں سکون سے سو سکے مقدس بیٹی کی کام سے مجھے مشک میز کستوری میں بیٹی رخسانہ باجی یاد آگئیں جو ظاہری باطنی طور پر اندر تک نیک تھیں.جن کو دیکھ کرمل کر میں ہمیشہ رشک کیا کر تا تھا کہ امریکہ جیسے بانجھ مادیت پرستی طلسم ہو شربا میں لپٹی تہذیب معاشرے میں فرشتوں جیسی رخسانہ باجی بھی ہے وہ جب بھی ملتی مجھے حیران کر دیتیں خدمت خلق انسانیت نوازی کے حقیقی معنوں میں علم بردار میں ان سے جب بھی ملتا تو حسرت سے کہتا کا ش رخسانہ باجی جیسا دل کردار اللہ مجھے بھی عطا کر ے انہوں نے جب سے میری کتابیں پڑھی تھیں مجھ سے بہت متاثر تھیں وہ جب بھی ملتیں وہ میری تعریفیں کرتیں میں ان کی تعریف کرتا رخسانہ باجی سے میری پہلی ملاقات چند سال پہلے ہوئی جب وہ امریکہ سے پاکستان آئیں تو مجھے فون کیا اور کہا سر میں امریکہ سے آپ کو بہت کال کرتی رہی ہوں لیکن بد قسمتی سے میری آپ سے بات نہیں ہو سکی .اِس بار پھر میں خاص طور پر آپ سے ملنے پاکستان آئی ہوں اصل آخری بار جب پاکستان آئی تھی تو واپسی پر ائر پورٹ پر بک شاپ پر آپ کی کتاب ملی دوکاندار نے بہت تعریف کی تو میں نے خرید لی کیونکہ میں نے دوکاندار سے کہا تھا مجھے روحانیت بزرگوں کی کوئی کتاب دو اس نے مجھے آ پ کی کتاب اسرارروحانیت دے دی میں امریکہ کے طویل سفر پر روانہ تھی طویل سفر پر اور تو کوئی کام نہ تھا آپ کی کتاب میں تنہائی اور سفر کی ساتھی بن گئی کتاب کا ہر ورق میری حیرتوں میں اضافہ کر تا گیا جو کھوج تلاش آپ کے اندر تھی یہی میرے اندر تھی مجھے لگا یہ تلاش حق کا یہ سفر آپ کا نہیں بلکہ میری زندگی کی داستان ہے پھر وہ دیر تک کتاب کی تعریف کرتی رہیں کیونکہ باجی رخسانہ روحانیت عشق الہی تصوف پر بات کر رہی تھیں جو میرا بھی پسندیدہ کام ہے.لہذا چند منٹوں کی کال ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آئی میں نے باجی کو اپنا ایڈریس بتا یاتو وہ مقررہ وقت پر میرے سامنے موجود تھیں سفید بڑی چادر میں ساٹھ سال سے اوپر کی باجی رخسانہ با وقار انداز میں میرے سامنے تھیں مجھے کہنے لگی آپ عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں لیکن میں اگر آپ اجازت دیں تو آپ کو باباجی کہنا پسند کر وں گی کیونکہ میرے باباجی اِس دنیا سے جا چکے ہیں میری زندگی میں بہت کمی ان کی اِس لیے اب میں وہی رشتہ آپ کے ساتھ قائم کر نا چاہتی ہوں میں نے خوش دلی سے باجی کو اجازت دی کہ اگر آپ مجھے باباجی کہیں گی تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہو گی.باتوں کے دوران میرے پوچھنے پر بتایا کہ کس طرح وہ روحانیت فقیری کی طرف راغب ہوئیں کہ میں پانچ سال کی تھی جب میرے والد صاحب ہارٹ اٹیک سے ہمیں لاوارث دنیا میں چھوڑ کر چلے گئے میں والدین کی اکلوتی اولاد اور لڑکی تھی والد صاحب کے خاندان والوں نے بوجھ سمجھ کر مجھے اور میری ماں کو والدہ کے گھر میں بھیج دیا میری نانی اور ماموں جان امیر دولت مند نہیں تھے پر ائمری سکول میں ٹیچر تھے ان کے پانچ بچے تھے گزارا بڑی مشکل سے ہو تا تھا میری ماں پڑھی لکھی نہیں تھیں اِس لیے نوکری نہیں کر سکتی تھیں نہ ہی گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا سکتی تھیں صرف تھوڑی بہت سلائی کا کام جانتی تھیں کانوں میں موجود آخری بالیاں بیچ کر سلائی مشین خرید کر اب تھوڑی بہت سلائی کا کام شروع کیا جس سے بہت تھوڑا خرچہ آنا شروع ہوا. غربت ماموں اور ہمارے گھر کے چپے چپے پر قابض تھی عیاشی زندگی کی آسائشیں ہم سے کوسوں دور تھیں کیونکہ (جاری ہے )
