69

چادریں… …(حصہ دوئم)

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
امی جان بہت اچھی کاریگر نہیں تھیں سادہ سے کپڑے سی لیتیں جن کے پیسے بھی بہت کم ملتے بھوک افلاس کی چکی تھی اور ہم ماں بیٹی جو زندگی کے دن گزار رہی تھیں جب بھی سردیاں آئیں ہم ماں بیٹی کے پاس گرم کپڑے چادریں نہیں ہوتی تھیں لہذا سردی میں کس طرح ٹھٹھر کر ہم موسم سرما کو گزار تیں یہ ہم ہی جانتی ہیں رات کو جس رضائی میں ہم ماں بیٹی سوتیں اس میں جگہ جگہ روئی نہیں تھی جس کی وجہ سے بہت سردی لگتی بیوہ ماں اور میں خودداری کی چادر میں ٹھٹھر رہی تھیں ماموں جان ہمارے ساتھ ظالمانہ رویہ نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان کے وسائل ہی نہ ہونے کے برابر اور پھر ہمیں کھانا دیتے تھے اِس لیے ہم ان سے زیادہ تقاضہ بھی نہیں کرتی تھیں زندگی سوئی پر لٹکے گزار رہی تھی پھر میری زندگی میں وہ واقعہ رونما ہو ا جب میں روحانیت درویشی سے واقف ہوئی میرے ماموں جان ایک بزرگ کے ساتھ منسلک تھے وہ مرشد سال میں ایک بار جب ہمارے علاقے کا دورہ کرتے تو ایک دن ماموں جان کی طرف بھی آتے اور رات بھی گزارتے اِس بار جب وہ سفید داڑھی والے نورانی بزرگ آئے تو ماموں جان ان کو چھوٹا سا گھر دکھاتے ہمارے چھوٹے سے کمرے میں بھی لے آئے سردیوں کا موسم تھا ہمارے کمرے میں صرف ایک چارپائی اور سلائی مشین تھی باقی سارا کمرہ غربت کا منہ بولتا اشتہار تھا آنے والے بزرگ نیک رحم دل تھے.اور آکر ماں کے سر پر ہاتھ پھیرا مجھے پیار کیا تو ماموں نے بتایا یہ میری یتیم بھانجی اور بہن ہے کمرے کی شکستہ حالت اور شدید سردی میں ہمارے ململ کے کپڑے اور دوپٹے دیکھ کر بزرگ سب سمجھ گئے تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے پھر نم آنکھوں سے چلے گئے بزرگ رات کو ہمارے گھر ٹہرے ان کی عادت تھی وہ جہاںبھی جاتے اپنا نرم و گداز گرم بستر ساتھ لے کر جاتے اگلے دن جاتے وقت وہ پھر ہمارے کمرے میں آئے میری ماں کے سر پر ہاتھ رکھا کچھ پیسے دئیے اور کہا میرا بستر آپ دونوں کی چارپائی پر ہو گا جس میں تم دونوں ماں بیٹی آج کے بعد سو ئو گی ساتھ ہی گرم چادر اپنے کندھوں سے اتار کر میری ماں کے کندھوں پر ڈال دی اور بآواز بلند کہا آج سے یہ دونوں میری بیٹیاں ہیں پھر مجھے بہت پیار کر کے بزرگ چلے گئے .یہ پہلا محبت پیار تھا جو مجھے ملا وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم دونوں ماں بیٹی آرام سے گرم بستر میں سوئیں اب میں بڑی ہو رہی تھی اگر کبھی بازار یا سکول جاتی تو سردی سے بچائو کے لیے وہ گرم چادر ساتھ لے جاتی میری کل کائنات یہ گرم چادر تھی جو ماں لے کر مجھے اپنی نرم گرم آغوش لے لیتی زندگی چلتی رہی اِس بھوک چھائوں میں جوان ہو ئی تو باباجی نے میری شادی امریکہ سے آئے اپنے مرید سے کردی جو باباجی کا روحانی بیٹا اور امریکہ میں ڈاکٹر تھا میرے خاوند کے والدین وفات پا چکے تھے میری ماں کو اپنی ماں بنایا ہم دونوں کو امریکہ لے آیا خاوند مشہور خوب کمانے والا ڈاکٹر تھا جنت نما زندگی پر آسائشیں میری منتظر تھی میرے مرشد باباجی نے ہم دونوں ماں بیٹی کو دوزخ سے نکال کر جنت جیسی زندگی دے دی.اِس طرح میں بزرگوں سے واقف ہوئی چند سال پہلے میرے مرشد انتقال کر گئے تو مجھے مرشد کی تلاش تھی تو آپ کے پاس آگئی بہت ساری باتیں کر کے رخسانہ حیات چلی گئیں وہ جب بھی پاکستان آتیں مجھے سے ملنے آتیں ان کی محبوب سخاوت گرم چادریں تھیں جو وہ ہر موسم سرما میں آکر ضرورت مندوں میں تقسیم کرتیں اِس کے علاوہ بھی بہت ساری یتیم مسکین خاندانوں کے وظیفے باندھ رکھے تھے پچھلے سال مجھے اطلاع ملی کہ رخسانہ باجی اب اِس دنیا میں نہیں ہے تو بہت دکھ ہوا آج اس کی بیٹی نے فون کیا کہ آپ سے ملنا چاہتی ہوں تو میں نے فوری گھر بلا لیا تھوڑی دیر میں ہی مقدس حیات آگئی.اور بولی میری ماں چلی گئی لیکن مجھے وصیت کر گئی ہیں کہ ان کی سخاوت کو جاری رکھوں پھر مجھے وہ اپنی کار کے پاس لے گئی جو گرم چادروں سے بھری ہوئی تھی میری آنکھیں نم ہو گئیں اور پھر بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا دعا دی ضرورت مند کی لسٹ دی اور وہ چلی گئی مجھے رخسانہ باجی کی درویش کی دی ہوئی گرم چادر یاد آگئی جس نے باجی کی زندگی بد ل دی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں