اسلام آباد(بیوروچیف)حکومت ابھی یہ دعوے کر رہی تھی کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرے گی اور عام آدمی کو غیر ضروری بوجھ سے بچایا جائے گا۔ عین اسی وقت ملک بھر میں پیٹرول پمپس پر لمبی لمبی قطاریں بننا شروع ہو گئیں۔ابھی یکم فروری میں دو دن کا وقت باقی تھا مگر پیٹرول پمپ مالکان یہ بھانپ گئے تھے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں ہر صورت اضافہ ہوگا تو ایسے میں انھوں نے تیل کی مصنوعی قلت پیدا کرنا شروع کر دی، جس کا اعتراف وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کیا ہے ۔یہ سلسلہ تقریباً پورے ملک تک ہی پھیل گیا اور یکم فروری سے پہلے ہی وفاقی وزیر خزانہ نے ٹی وی پر آ کر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا۔حکومت کا یہ ماننا ہے کہ اس طرح سے بے یقینی والی کیفیت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے ۔ اس سے قبل کرنسی ایکسچینج کمپنیوں نے ڈالر کے مصنوعی ریٹ کے خاتمے کا اعلان کیا اور اس کے بعد روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں دو روز میں 14 فیصد کا اضافہ ہوگیا تھا۔جہاں ماہرین پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے جیسے ان اقدامات کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں وہیں وہ حکومت کی طرف سے بروقت اقدامات نہ کرنے پر بھی متعدد سوالات اٹھا رہے ہیں۔معاشی امور کے ماہر اور صحافی خرم حسین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس اضافے پر بات رُکے گی نہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ آگے جا کر ابھی مزید اور اضافوں کی ضرورت پڑے ۔ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ شروع ہی تب ہوا جب پیٹرولیم مصنوعات کو دوبارہ کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ خرم حسین کے مطابق ‘اسحاق ڈار نے حقیقت کو تین سے چار ماہ بعد آخر قبول کیا ہے ۔ اگر اسحق ڈار نے پیٹرولیم مصنوعات کو واپس ریورس کرنے کی ضد نہ پکڑی ہوتی تو اس طرح معیشت کا پہیہ رکا نہ رہتا۔ان کے مطابق وزیر خزانہ نے حقائق آخر کار تسلیم کر لیے ۔ یہ بہتر ہوا بجائے اس کے کہ وہ آئل کمپنیز کو ڈانٹ کر قیمتیں کم کرنے کی کوششیں کرتے ، یا کوئی اور راستہ ڈھونڈتے ۔خرم حسین کے مطابق سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے راستے پر اگر ہم چل رہے ہوتے تو روپے کے قدر اس طرح نہ گرتی جتنی آج ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ اس سے کہیں بہتر صورت حال ہوتی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلے آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ کے مطابق ہونے ہی تھے کیونکہ غلط فیصلوں کے باعث پاکستان کی معیشت پوری طرح سے رُک گئی تھی۔دسمبر 2022 سے اب تک وزیر اعظم کے بیانات آتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے مطالبات کو مانا جائے گا کیونکہ شرائط نہ ماننے سے قسط کے پیسے رُکے ہوئے تھے ۔اور اسی کے باعث سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تمام امداد رُکی ہوئی تھی۔ ایشائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کی تمام رقوم بھی رُکی ہوئی تھیں۔معاشی امور پر نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ہرگز غیر متوقع نہیں بلکہ بنیادی طور پر یہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی شرائط کی ایک کڑی ہے جس کی ذمہ داری حکومت اپنے اوپر لینے سے انکار کر رہی ہے ۔ان کے مطابق حقیقیت یہ ہے کہ 31 جنوری سے حکومت کے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا حکومت پاکستان سے عرصے سے مطالبہ تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں میں فوری اضافہ کیا جائے تو یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔شہباز رانا کے مطابق چار ماہ پہلے آئی ایم ایف کے پروگرام کو روکنے کا فیصلہ کیا تھا اس کی وجہ سے آج ہم اس نہج پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مفتاح اسماعیل نے جس حالت میں ملک چھوڑا تھا اور آج جہاں اسحاق ڈار ملک کو لائے ہیں ان میں کافی فرق ہے ۔آئیڈیل حالات مفتاح اسماعیل کے دور میں بھی نہیں تھے اور آج بھی نہیں ہیں۔ تاہم اس وقت معیشت کے حالات اتنے بُرے نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف حقیقت کو تسلیم کیا جائے بلکہ عوام کو بھی حقائق سے آگاہ رکھا جائے ۔شہباز رانا نے اسحاق ڈار کی اس توجیہہ کو بھی بے بنیاد قرار دیا کہ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے فوراً اعلان کی وجہ ملک میں پیٹرول کی مصنوعی قلت ہے ۔ان کے مطابق اگر 100 پیٹرول پمپ سیل یا بند کر دیں تو کیا یہ حکومت کے لیے فوری اتنی بڑی رقم میں اضافے کے اعلان کا جواز ہے ؟ڈالر کیپ ہٹانے کے بعد پیٹرول کی قیمت میں فوری اضافہ اس لیے نہیں ہوا کہ کوئی راتوں رات سودے ہوئے ۔ نہ کوئی فوری طور پر تیل منگوایا گیا۔ وہ تو جب ہو گا جب نئی ڈلیوریز آئیں گی۔شہباز رانا کے مطابق ڈالر اوپر جانے کی ذمہ داری حکومت نے نہیں لی بلکہ سارا قصور تحریک انصاف کی حکومت پر ڈالا تو مسلم لیگ ن کے بھی تو فیصلے ہیں، ان کی ذمہ داری وہ کیوں نہیں لیتے ۔ انھیں بتانا چاہیے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت یہ پاکستان کو کرنا ہی ہے ۔ایسے میں حکومتی رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سے جب سیالکوٹ میں سوال ہوا تو انھوں نے کہا کہ رات کو جن پیٹرول پمپس پر پیٹرول نہیں دیا جا رہا تھا یا جنھوں نے قیمتوں کے اضافے کے پیش نظر اپنے پیٹرول پمپس بند کیے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ان کے مطابق انتظامیہ کو چاہیے کہ ایسے پیٹرول پمپس سیل کر دے اور ان کمپنیوں کا کاروبار بند کر کے مقدمہ قائم کرے تاہم ایسے لوگ طاقتور ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بے شک ہم حکومت میں ہیں تاہم ہمیں اس کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے ۔ عام آدمی قیمت ادا کرتا ہے جبکہ طاقتور مال بناتا ہے ۔خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ ڈالر اور پاکستانی روپے کے سٹے میں کئی بینک ملوث ہیں جن کو وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ۔
54