20

ڈپٹی کمشنر۔ کل اور آج

ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہی زیر بحث رہا ہے۔ ویسے بھی بحث کرنے کے لئے ہمارے پاس کھلا وقت ہے اور حق اور مخالفت میں دلائل بھی تھوک کے حساب سے ہیں اور جب چیزیں تھوک میں ہی مہنگی بکیں گی تو اوپن مارکیٹ میں مہنگائی کا شوروغل تو ضرور ہوگا اس پر ڈپٹی کمشنر کے بارے میں گفتگو تو بنتی ہے۔ عہدہ بھی کیا چیز ہے اس کے بارے میں بے شمار بیانئے بنے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے بننے اور ٹوٹنے کا عمل جاری رہا۔ عہدوں کی جنگ پرانی ہے لیکن عہدوں کی بحث کبھی پرانی نہیں ہوتی ہے۔ انگریز سرکار نے ہندوستان کو معاشی طور پر تو شاید کنگال کردیا تھا لیکن کچھ کام ان کے ایسے بھی ہیں جن کی تعریف نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ اختلاف رائے کی ہر جگہ گنجائش ہوتی ہے اور اختلاف کی بنیاد منتقلی دلیل ہوتی ہے۔ وقت نے بھی اپنا فیصلہ سنانا ہوتا ہے اور اس فیصلے کی گونج فطرت کے پورے نظام میں سنائی دیتی ہے اور اس کی تاثیر آفاقی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں مضبوط ادارے بنائے گئے اور اگر ادارے مضبوط ہوں تو ملک کی گاڑی نان سٹاپ جاتی ہے ورنہ اس کو ہر سٹیشن پر رکنا پڑتا ہے اور بار بار رکنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ وقت ہی تو اصل چیز ہے اور جو وقت کی اہمیت کو جان گیا وہ دنیائے رنگ وبو میں جانا بھی جاتا ہے اور پہچانا بھی جاتا ہے۔ ادارے افراد سے بنتے ہیں اور افراد عہدوں پر متمکن کئے جاتے ہیں۔ بلاشبہ بڑے بڑے عہدوں پر بعض اوقات چھوٹے چھوٹے لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور بسا اوقات چھوٹے عہدوں پر بڑے لوگ جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ بات قد کاٹھ کی ہے جبکہ کاٹھ ایک لکڑی کو کہتے ہیں اور لکڑی سے بیساکھیاں بنتی ہیں اور بیساکھیوں پر چل کر آنے والے۔ “بس چپ ہی بہتر ہے”۔ بات تو عہدوں پر قد کاٹھ والوں کے بیٹھنے کی ہے۔ ماضی کا ڈی سی اور پھر آج کا ڈی سی۔ جس کی گواہی قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامے کے ہر ہر اکھر سے ملتی ہے۔ سارے مسئلوں کا ایک ہی حل اور وہ جھنگ کی دھرتی پر قدرت اللہ شہاب ڈپٹی کمشنر۔ ادب کی بھی اپنی فروٹ چاٹ ہوتی ہے اور فروٹ چاٹ مصالحہ خریدنے کے لئے جیب میں پیسے ہونے چاہیئں۔ ویسے بھی کائنات عالم اسباب ہے اور اسباب تلاش کرنا مائنڈ اپلائی کرنے کا محتاج ہے۔ اور جس نے بھی سوچ بچار کی اس نے ڈلیور کیا اور کام کرنے والوں کو لوگوں نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بات قدرت اللہ شہاب تک محدود نہیں ہے۔ کائنات اللہ کے بندوں سے بھری پڑی ہے آپ کو صرف تاریخ کے دریچوں میں جھانکنا پڑتا ہے اور ہم زیادہ تر انا کے دروازوں میں جھانک کر اپنے آپ کو متنازعہ بنا لیتے ہیں۔ راقم الحروف کو سید طاہر حسین سابق ڈپٹی کمشنر اور کمشنر فیصل آباد کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا ان کا خیال تھا کہ ایک منتظم کو ہر جگہ پہنچ جانا چاہیئے اور موقعے کی نزاکت سے ہی منصوبہ سازی کے ہیئت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ بات جس جس نے پلے باندھ لی وہ ہر وقت عوام میں ہوتا ہے اور عوام بھی اس کی اتنی مارکیٹنگ کردیتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں وہ نہیں ہوتا لیکن اس کے تذکرے ہوتے ہیں۔ ڈیمس نام کا بھی ایک ڈپٹی کمشنر تھا اور مذکورہ افسر کے بارے میں جاننے کے لئے آپ کو جام پور جانا پڑتا ہے اور پھر جام پور سے آگے داجل بھی ہے اور پھر ہرڑند نام کا بھی ایک قصبہ ہے۔اس کے بعد تو کوہ سلیمان ہے اور کوہ پیمائی جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہمارا آج کا سفر جام پور کے ڈیمس گیٹ پر اختتام پذیر ہوتا ہے جبکہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے بات تو یہاں سے شروع ہوگی۔ مسٹر ڈیمس نام کا ایک شخص برطانیہ سے آتا ہے ڈپٹی کمشنر تعینات ہوتا ہے اور ڈیرہ غازی خان ضلع کے لیئے دن رات ایک کردیتا ہے اور پھر گیٹ متزکرہ بالا بنتا ہے اور بقول شاعر پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ۔۔۔مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں)کوئی تو ڈپٹی کمشنر کے عہدے میں کشش ہے ناں کہ ہر باپ اپنے بیٹے کو ڈی سی بنانا چاہتا ہے میرے والد محترم کی بھی یہی خواہش تھی اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے کوئی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے۔ بس کتاب بینی اور پھر محنت شاقہ۔ کام سے نام ہے اور نام بنانے کے لئے ہاتھ پاوں مارنے پڑتے ہیں اور ہمارے کچھ افسروں کا خیال ہے کہ ڈی سی کے ہاتھ پاوں توڑ دیئے گئے ہیں۔ اختیارات کے نہ ہونے کا رونا دھونا اور رونے دھونے والوں کی بینائی کم ہو جاتی ہے اور آگے دیکھنے والوں کی نظر میں وسعت پیدا ہوتی ہے وہ نئے جہاں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور پھر سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں میرے پاس ایک شخص حاضر ہوا وہ بیانی تھا کہ اس کا بھائی اس کے حصے کی زمین پر ناجائز قابض ہے۔ قانونی موشگافیوں کی بدولت یہ سارا معاملہ کئی سالوں بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچتا۔ اور یہ بحث بھی ہوتی کہ ایسا معاملہ ڈی سی کے پاس زیر بحث آسکتا ہے یا کہ نہیں۔ میں نے اس کے بھائی کو بلایا اور ماں جائے لفظ پر زور دے کر ان دونوں کو رونے پر مجبور کردیا اور نفسیاتی طور پر ان کو اپنے عہدے کے اختیارات کے حدود وقیود پر تفصیلی بات چیت کی اور چند ہی لمحوں میں انصاف کے تقاضے پورے ہوگئے۔اور دو بھائیوں کا مسئلہ حل ہو گیا۔ یہی ایڈمنسٹریٹو جسٹس ہے جس کی اہمیت کا اندازہ ہم کو نہیں ہو رہا ہے اور ہم سب بنام سرکار کی لائن میں لگے ہوئے ہیں۔ متذکرہ بالا واقعہ تو دیگ کا ایک چاول ہے۔ باتیں تو اور بھی ہیں جس کی تفصیل پیش کرنے کا ایک کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔ سول سروس کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ دور کی بات نہیں ہے ابھی کل کی بات ہے۔ بڑے بڑے لوگ ہیں جنہوں نے بطور ڈی سی اپنا نام پیدا کیا ہے۔ نسیم صادق تو ایک برانڈ کا نام ہے۔ راجن پور میں ظہور حسین اور غازی امان اللہ خان ڈپٹی کمشنر (میں جیہڑا ورقہ پھولدی اس ورقے تیرا ناں) وقت کا سفر جاری وساری ہے۔ گلوبل ویلج اور پھر سوشل میڈیا۔ فیبرک تبدیل۔ سوچ بیدار بلکہ سوچ کی لہروں میں ہیجان کی کیفیت اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وقت کی حساسیت کے پیش نظر رولز آف بزنس پر نظرثانی۔ پنجاب کی موجودہ سیاسی و انتظامی قیادت کی پختہ سوچ اور جامع حکمت عملی۔ محترمہ مریم نواز وزیر اعلی پنجاب کے احکامات ۔ ڈپٹی کمشنر کی میرٹ پر تعیناتی۔پبلک سروس کا حقیقی معنوں میں عملی مظاہرہ اور پھر کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لئے طریقہ کار کا وضع کیا جانا۔ اور پھر زاہد اختر زمان چیف سیکریٹری پنجاب کا مذکورہ اقدامات کو نافذ کرنا۔ یہ ہے گڈ گورننس اور انتظامی بصیرت۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں