42

کلیمی چند قدم پر ہے

تحریر: ایم سرور صدیقی
اس نے کہا عجیب شعرہے
مجھ کوڈرہے چاندپر بھی آدمی
منتقل ہو جائے گا طبقوں سمیت
میںنے کہا ایساہونا عین ممکن ہے۔اس معاشرہ میں قدم قدم پر طبقاتی سٹیٹس موجودہے جس سے اب چھٹکارا پانا محال ہے
اس نے کہا۔ نہیں یارکیسی بات کردی آپ نے؟
میں نے جواباًعرض کیا۔ کسی دفتر،پولیس اسٹیشن یا کسی شخصیت سے دو افرادکو ایک ہی نوعیت کا کام ہو ایک آدمی کا تعلق کسی عام سے علاقہ یا محلے سے ہو دوسرا ڈیفنس،بحریہ ،عسکری یاماڈل ٹائون کا رہائشی ہو دونوںسے ایک جیسا طرز ِ عمل ۔ایک جیسا سلوک کبھی نہیں ہوگا
اس نے گھبرا کر کہااس کا مطلب ہے بیڑاہی غرق ہوگیا
”ہاں۔میں نے آہ بھر کر یاسیت سے کہا ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں پہلے برادریوں کے نام پر۔ کبھی لسانی اورعلاقائی سوچ نے ہمیں پارہ پا رہ کیا: پھرفرقوں اور مسالک نے ہمیں تقسیم کردیا اب طبقاتی سٹیٹس نے۔اس نے ماتھے پرہاتھ رکھتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری
یار ہمارے ساتھ کیا کیا ہورہاہے اور کسی کو مطلق احساس تک نہیں یہ بے خبری ہے یا تجاہل ِ عارفانہ ؟
آپ اسے اجتماعی بے حسی کا نام دے سکتے ہیں میرے لہجے میں تلخی عود آئی
اس کا کوئی حل بھی ہے۔وہ سراپا سوال تھا
شاید اب ہم اس منزل سے آگے نکل آئے ہیں ،میں نے کہا مجھے تو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی
مایوس ہوگئے۔اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔میں گھبراکر اٹھ کھڑاہوا۔اس نے کہا اب کیاہوا؟
لگتاہے۔میرا ایمان کمزورہوگیاہے میں نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیامایوسی تو میرے مذہب میں کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے ۔اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا
لیکن یار یہ سامنے کی بات لوگوںکی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟
شاید میری طرح ان کی بھی مت ماری گئی ہے میں نے جواباً کہا۔۔ان مکالموںنے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیاتنہائی میں غور وفکرکے کئی دریچے کھل گئے عجیب و غریب خیالات،کئی مظلوموں کے ہاڑے،بھوک سے بلبلاتے بچوںکی سسکیاں،کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے رزق تلاش کرنے والوں کے غم،پوری زندگی سسک سسک کر جینے والوںکی آہیں، ایک ایک لقمے کو ترستے لوگ،غربت کے ہاتھوں اپنی ہی زندگی کا خاتمہ کرنے والے بزدل یا پھرمحرومیوں کا شکار جنوبی ایشیاء ہو یا پھرغریب ملکوں کے80%شہری جن کے پاس زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی نہیں یا وہ بے بس۔ غربت کے مارے جواپنے لخت ِ جگر بیچنے کیلئے کتبے لگائے شہر کی سڑکوںپر بیٹھے ہیں یاوہ جو روٹی کھانے کیلئے ہسپتالوںمیں اپنا خون بیچتے پھرتے ہیں یا اپنے ہی گردے بیچنے کیلئے مجبور ہیں میں کس کس کا تذکرہ کروں کس کس کا نوحہ پڑھوں۔ کس کس کی بات کروں۔۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے مایوسی تو اسلام میں کفرہے۔ خدایا مجھے فہم و ادراک دے ۔۔میری رہنمائی کر پھر یہ سب کچھ کیا ہے؟ظالموںنے مظلوموں کا جینا عذاب کیوں بنادیاہے میں سوچتاہوں پاکستان کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ بھی لگا ہواہے،افغانستان کے پرچم پر مسجد بنی ہوئی ہے ،افریقی ہوں یا سیکولر ممالک ہرجگہ غریبوںکا براحال ہے لیکن پاکستان تو اسلامی ہے نہ جمہوری افغانستان بھی آدھا تیتر آدھا بٹیرہے ،افریقی ممالک میں غضب کی غربت ہے ،بھارت میں لاکھوںشہری جھونپڑیوں میں پیدا ہوتے ہیں وہیں سے ان کے جنازے اٹھتے ہیں ۔ معاشرہ کوئی بھی ملک جو بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا ہر صورت میں عوام کے کچھ حقوق تو ہو تے ہیں۔جن ممالک کو ہم کافر اورغیر مسلم قرار دیتے ہیں ان میں جانوروںکے بھی حقوق ہوتے ہیں اور ان کے حق میں آواز بلندکرنے کیلئے کئی تنظیمیں بھی موجود ہیں لیکن جس ملک کو ہم اسلامی جمہوریہ سمجھتے اور لکھتے ہیں یہاں تو غریب انسانوںکا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا وہ بے چارے ساری زندگی سسک، سسک کرجیتے ہیں نہ مرتے ہیں ۔ کبھی سو چتاہوںہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں پہلے برادریوں کے نام پر۔ کبھی لسانی اورعلاقائی سوچ نے ہمیں تقسیم کیا۔ پھرفرقوں اور مسالک نے ہمیں اکائی بناڈالا اب طبقاتی سٹیٹس سے جینا محال ہے کیا ہمارے آ س پاس روشنی کی کوئی کرن نہیں؟
گلے شکوے،حالات کی شکائتیں اورمایوسی کی باتیں کرتے کرتے یوں لگا جیسے میرے دماغ میں روشنی کا ایک جھماکا ساہواہو پوراماحول جگ مگ جگ مگ کرنے لگا میں تو روشنی کی ایک ایک کرن کو ترستا تھا یہاں ہر چیز روشنی میں نہائی ہوئی تھی حد ِ نظر روشنی ہی روشنی۔ جیسے نور ہی نور، دل نے سوال کیا الہی یہ کیا ماجراہے ۔
لگاجیسے کسی نے دل کے دروازے پر دستک دی ہو کوئی کہہ رہاہو ۔تم لوگوںنے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے گلے شکوے، شکائتیں اورمایوسی ہی کو زندگی سمجھ لیاہے جانتے ہو غور نہ کرنے والے یقینا خسارے میں ہیں۔میں آنکھیں ملتاہوا اٹھ کھڑاہوا احساس ہو ا جیسے میرے اندر کوئی بول رہا ہو لہجہ تنبیہ جیسا لیکن مشفق۔ قدرت کا فیصلہ اٹل ہے۔ اللہ تعالیٰ کواپنے کہے کا پاس ہے یہ بشر ہی ہے جس نے فسادبپا کررکھاہے یہ انسان بننے کیلئے کیوں راغب نہیں ہوتا۔ حالات بدل سکتے ہیں ،محرومیاں ختم اور ایک نئے دور کا آغاز کوئی اچھنبے کی بات نہیں لیکن ا س کیلئے کوشش کرنا پڑتی ہے خدا کبھی اس کے حالات نہیں بدلتا جو خود خواہش اور عملی کوشش نہ کرے مسلمان ہونا ہی کافی نہیں اس کے ساتھ ساتھ انسان سے پیار اور انسانیت سے محبت لازمی شرط ہے مٹی کے پتلے نے شاید ہی سوچا ہو برادریوں کے نام پر۔ کبھی لسانی اورعلاقائی سوچ نے اسے کہاں لاکھڑا کیاہے۔ فرقہ بندی اور مسالک کے جھگڑے اب طبقاتی سٹیٹس۔ اور کتنی پستی میں گرنے کا ارادہ ہے؟ کلیمی دو قدم کے فاصلے پرہے حیف صد حیف کسی کو اس کا ادراک بھی نہیں،میرے اندرکے انسان نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا
نہ کر خواج خضردیاں منتاں
تیرے اندر آب حیاتی ہو
جس دن اس معاشرہ کو تفرتوںکا خاتمہ اور انسانیت کااحترام کرنا آگیا آدھے سے زیادہ مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے ۔میں دل ہی دل میں دہرانے لگاحالات بدل سکتے ہیں ،محرومیاں ختم اور ایک نئے دور کا آغاز کوئی اچھنبے کی بات نہیں یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے مایوسی تو اسلام میں کفرہے۔ کفرکا سینہ ایمان سے روشن کرنے کیلئے ہمت ، محنت ،کوشش اورجدوجہدناگزیرہے اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا ہم نے اپنے حالات بدلنے کیلئے اپنی سوچیں بھی تبدیل کرناہیں اپنے شب و روز میں تبدیلی لانے کیلئے یہی سب سے پہلا فلسفہ ہے معاشرے سے غربت،جہالت ، افلاس کے خاتمہ کیلئے انتھک محنت کرناہے پیجھے مڑ کر نہیں دیکھنا آگے۔ اور آگے ۔ اور آگے بڑھتے ہی جاناہے سفر 100کلو میٹرکا ہو یا پھر چندکوس کا آپ پہلا قدم اٹھائیں گے تو طے ہوگا انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے دنیا کا بڑے سے بڑا مسئلہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں بات وہی پیش ِ نظررکھیں کلیمی دو قدم کے فاصلے پرہے حیف صد حیف کسی کو اس کا ادراک بھی نہیں۔ایک بات کا فیصلہ کرلیں ہم نے ساری زندگی سسک، سسک کرجیناہے یا پھر دنیا کو کچھ کرکے دکھانا۔ کچھ بن کر دکھاناہے جس کو یہ فلسفہ تمجھ میں آگیا اس کیلئے برادری، لسانی اورعلاقائی سوچ ،فرقہ بندی ، مسالک اور طبقاتی سٹیٹس کچھ معنی نہیں رکھتے انسانیت ہی مقدم رہے گی کلیمی دو قدم کے فاصلے پرہے توپھرجستجو کیوں نہیں ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں