میں اس لئے خلو ص سے ملتا ہوں دوستو
دنیا میری مثال دے مرنے کے بعد بھی
تحصیل گوجرہ علم وادب کے حوالے سے زرخیز خطہ ہے۔ سرزمین گوجرہ سے جنم لینے والے اہل علم وادب نے ادب کی بہترین انداز میں آبیاری کی ہے۔اوربڑے ذوق وشوق سے ادب کے فروغ اور اس کے نکھار کیلئے گرانقدر خدمات انجام د ے رہے ہیںجس کی بدولت اس شہر کو علم وادب کا گہوارہ کہاجاتاہے۔ 4اکتوبر 1955کومندر والی گلی کے صوفی نذیر احمد کے آنگن میںپیدا ہو نے والے ریاض قدیر جو ادب کی دنیا میں ”تبسم بٹالوی ”کے نام سے مقبول ہیں۔ اپنے تخیلات کو الفاظ میں ڈھال کرتصویر کشی پرخاصاعبوررکھتے ہیںاور اپنے شاعرانہ فن کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔ان کا ادبی سفر ان کوبام عروج تک لے جانے میں بے حد معاون رہا۔راقم الحروف نے تبسم بٹالوی کی ادبی سرگرمیوں کی فنی و ادبی صلاحیتوںکا احاطہ کر نے کی کوشش کی ہے۔جو شعرکے میدان میں ایک معتبر نام کی حیثیت اختیارکر چکے ہیںاور یقینالازوال اور باکمال شاعرہیں۔ان کی شخصیت پر گہری نظر ڈالی جائے تووہ پیکرِمحبت اور خوش اخلاقی میں اعلی درجہ اوصاف کے مالک ہیں۔تبسم بٹالوی لکھنے میں نہ تھکنے والی شخصیت کانام ہے جو ہر وقت جنون کی حد تک اپنے ادبی سفرکو نکھارنے اوراس کی تکمیل میں مصروف کار رہتے ہیں۔ ادبی محافل میں اپنے معیاری ود لکش اور دل نشیںکلام کی بدولت محفلوں کو لوٹنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ موصوف اپناکلام ترنم سے سنانے میں بھی اکثرمحفلوں میں جلوہ گر ہو تے ہیں۔اپنی غزلوں ،گیتوں اور نظموں میں انتہائی سلیقے اور قرینے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سامعین سے خوب دادوصول کر تے ہیںاور وہ گوجرہ کے ادبی حلقوں میں روشن مثال ہیں۔ان کی شخصیت گلستانِ ادب کے فروغ میں اضافہ پیدا کر تی ہو ئی دکھائی دیتی ہے۔تبسم بٹالوی نے ہمیشہ اپنے تخلیقی سفرکو ذوقِ سخن میں انتہائی خوش اسلوبی سے نبھایاہے۔وہ کہنہ مشق اور ہر دل عزیزشخصیت ہو نے کے ساتھ ساتھ معتبر شاعر ی کے حوالے سے بھی کسی سے کم نہ ہیں۔ ان کے خیالات اور جذبات کے اظہار کی صورت چھپ کر مارکیٹ میں آنے والی کتب میں اُردو غزل”بے نام” عوامی آگاہی برائے ڈینگی وائرس”احساس زندگی کا” اردو نظمیں”ژرف” اردو نعت” نسبت”اردو نظمیں ”وفا کچھ اور کہتی ہے”عوامی آگاہی برائے پولیووائرس”ٹیڑھے پھول” طنزو مزاح ”سمائل کٹ”عوامی آگاہی برائے سگریٹ نوشی”کہیں راکھ نہ ہو جانا”اردو غزل ”ترقیم”ردیفی غزل ”برسات کے موسم میں ”عوامی آگاہی برائے کورونا وائرس”حرف آگہی”سہروں پر مشتمل انتخاب ”جشن شادمانی” مقامی شعرا کے کلام کاانتخاب ”کہکشاں” اورمنتخب شعراکے کلام کا انتخاب”ترمیم” اردوگیت”گیت وفاکے” اُردوغزل ”تسلسل”اُردوصنعتوں میں شاعری” صناعت سخن”غالب کی شاعری کی تضمین ”تضمین ِغالب”صنعتوں میں مرحوم مقامی شعراء پر اُردوغزلیں”مٹی کے پھول”بچوں کی اُردونظمیں ”پیام ِتبسم”کے علاوہ پنجابی نظم”قبراں وچ مسیت”پنجابی غزل ”دِل دے ورقے”پنجابی گیت ”سازاں نال آوازاں”شامل ہیں جن میںعصر حاضر کے مسائل کی عکاسی نظر آتی ہے۔انہوں نے آس پاس کے ماحول کو جس انداز میں دیکھااُس کی اپنی غزلوں ،نظموں اور تحریروں کی صورت میں بھر پور انداز میں ترجمانی کی ہے۔جو شعروادب سے لگائورکھنے والوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جارہی ہیں جبکہ ان کی تصانیف نئے لکھاریوں میں بھی ادبی سفرمیں رہنمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہو رہی ہیں۔موصوف ادبی خدمات کے اعتراف میں اب تک مختلف ادبی تنظیموں اور سرکاری اداروں کی طرف سے 35 ایوار ڈ ز حاصل کر چکے ہیںجبکہ ناقدین فن کی نظرمیں ان کی شخصیت کوبہت ہی خوبصورت الفاظ کے ساتھ نوازاجا چکاہے ملک بھر سے شاعر،ادیب اورنقاد محسن بھو پالی کہتے ہیں ”تم غزل اچھی کہتے ہو اسی پر توجہ مرکوز رکھو” معروف قوالی”تم ایک گورکھ دھندہ ہو” کے خالق استاد الشعراء ناز خیالوی مرحوم نے کہا تھا ”تبسم بٹالوی کے اندر ایک بھر پور شاعر موجودہے”روف شیخ کہتے ہیں ”آپ کو غزل کہنے کا ڈھنگ آتاہے”طاہر صدیقی کہتے ہیں”آپ نے نظم اور نثرہر دوپیرائے میں مجھے متاثرکیا”ایس ایم صادق کہتے ہیں”آپ کی طرح کے نام کے شاعرکی غزل میری نگاہ سے گزری ہے جو کافی اچھی تھی ”مجھ کو کفنانے کے بعد” ڈاکٹر سعید اقبال سعدی کہتے ہیں”تبسم بٹالوی کی شاعری کی خصوصیت ہے کہ وہ الفاظ کے بر محل اور برجستہ استعمال کا فن جانتاہے وہ جہاں چاہتاہے الفاظ کو موثر انداز میںاستعمال کر کے اپنے اشعارکو پُراثر بنا لیتا ہے” پروفیسر ریاض احمد قادری کہتے ہیں کہ”تبسم بٹالوی کی شاعری ان کی شخصیت کا پرتواوران کی ذات کی آئنہ دارہے وہ جو سوچتے ہیں وہی لکھتے ،جو کہتے وہی کرتے ہیں۔قول وفعل میںمطابقت کے شاعرہیں”حکیم محمد رمضان اطہر کہتے ہیں
اک معتبر جہان ہے خدمات کا تری
خدمت کا تراپیام تبسم۔۔۔ بٹالوی
عابد کمالوی کہتے ہیں”اگر چہ آج کل موضوعاتی شاعری کا رواج تقریباختم ہو کر رہ گیاہے لیکن تبسم بٹالوی نے اکبر الہ آبادی اور نظیراکبر الہ آبادی کے رنگ کو دوبارہ زندہ کر دیاہے”سرفراز احمد فتیانہ کہتے ہیں”مجھے یہ کہتے ہو ئے کوئی باک نہیں کہ تبسم بٹالوی نے بیماری،طریقہ علاج اور احتیاطی تدابیرکے حوالے سے ڈینگی جیسے موضوع پر جس گل فشانی گفتارکا مظاہرہ کیاہے وہ موضوع کی تنگی کے باوجود چشم کشاہے”اذلان شاہ کہتے ہیں”تبسم بٹالوی کاا دبی سفرکئی سالوں پر محیط ہے اور میں دل سے ان کی قدر کرتاہوں کہ انہوں نے کبھی اپنے ہم عصروں کی طرح اپنے مقام کا خود تعین کر نے کی کوشش نہیں کی”غزالی کہتے ہیں ”کسی بھی ایک موضوع پر پوری کتاب لکھناجتنا مشکل ہے اتنی ہی اس پر محنت اور لگائو کی ضرورت ہوتی ہے ڈینگی پر تبسم بٹالوی کی کتاب اس کے جنون کی ایک مثال ہے”فرہاداحمد فگار کہتے ہیں”ایک فنکار کافن تب تک معتبر نہیں ہو سکتاجب تک اس میں مقصدیت ،حقیقت واحساس نہ ہوتبسم بٹالوی کے ہاں یہ تینوں چیزیں خوش اسلوبی سے ملتی ہیں”یاسمین یاس کہتی ہیں ”شاعری تین چیزوں پر قائم ۔سچ،خوبصورتی اورمحبت ۔تبسم بٹالوی کے قلم نے پہلے اصول کو اپناایمان بنا لیااور اسی کا ہاتھ تھام کے وہ ہر موضوع کے ساتھ انصاف کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں”سید افسر ساجد کہتے ہیں”تبسم بٹالوی ایک عرصہ سے مشق سخن میں مبتلا ہیں۔ادب اور تخلیق ادب سے ان کا رشتہ خاصاتوانا ہے۔حلقہ محبان ادب گوجرہ کے ذریعے انہوں نے گوجرہ جیسے مردم خیزخطے کی گہماگہمی میں ایک خوشگواراضافہ کیاہے”۔بشیر ربانی کہتے ہیں”تبسم بٹالوی محبت ، خلوص ، وفااور محنت کا پیکر ہے بلاشبہ اسی کے دم سے گوجرہ ادبی حوالہ سے مضبوط ہواہے” پروفیسرادریس چوہان کہتے ہیں”تبسم بٹالوی کی نعت عشق محمدۖمیں ڈوبے ہوئے الفاظ کا مرقع ہے”سید سلمان گیلانی کہتے ہیں”
وفا کچھ اور کہتی ہے تبسم کی کتاب۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی
ادب کے گلستاں سے لے کے کچھ تازہ گلاب آئی ہے”
بلاشبہ شعروسخن کے میدان میں تبسم بٹالوی کی بے لوث خدمات کی بدو لت ادب پھلتا پھولتانظر آرہاہے۔بلکہ یہ کہنابھی بے جا نہ ہو گاکہ تبسم بٹالوی ادب کے حوالہ سے گوجرہ کی پہچان بن چکے ہیں۔ادبی تنظیموںحلقہ محبان ادب،مہک گوجرہ،بزم تبسم گوجرہ کے بانی اوررابطہ سیکرٹری کے طور پراپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں اورآج تک تقریبا350مقامی اور10آل پنجاب مشاعروں کا انعقاد بہت بڑا اعزازہے۔آخر پر دعا گوہوں کہ تبسم بٹالوی شعروسخن کے میدان میں اپنالوہا منواتے رہیں(آمین)
