17

ہرڑند کا قلعہ۔ایک پیغام ہمارے نام

کوئی بھی قوم کسی قسم کے بگاڑ کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ معاشرتی بگاڑ تو خصوصا تباہ کن نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ کاش ہمارے معاشرے کے ہر فرد کو بگاڑ کے لفظ کی حساسیت کا اندازہ ہو جاتا تو ہر شخص کا انداز گفتگو ہی بدل جاتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر ہم سب کو چپ ہو جانے کے نتائج کا علم ہو جائے تو ہم سب چپ وٹ جائیں۔ ایک یہ بھی پکا پیڈا بیانیہ ہے کہ ہمیشہ چپ نہیں رہا جا سکتا۔ دونوں صورتوں میں ہم افراط وتفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق تو سب سے بہتر راستہ اعتدال کا راستہ ہے۔ اعتدال اور عدالت کا بھی ایک ہی مادہ ہے۔ اس لحاظ سے رول آف لا بھی اعتدال سے ہی جنم لیتا ہے۔ فطرت کا بھی ایک مربوط نظام ہے۔ سورج کے غروب ہونے پر چاند اور تاروں کی چمک نمایاں ہوجاتی ہے اور پھر خون صد ہزار انجم سے سحر پیدا ہوتی ہے۔ پہاڑ سب کا یا تو راستہ روکتے ہیں یا پھر سب کو آگے بڑھنے کا یکساں موقعہ دیتے ہیں۔ بادل جب پانی گراتا ہے تو بڑے چھوٹے سب مستفید ہوتے ہیں۔ مذکورہ فطرت کے یہ اداکار جس دن اپنا اپنا کام چھوڑدیں گے کہانی اپنے اختتام کو پہنچ جائیگی اور ببانگ دہل پوری انسانیت کو یہ پیغام دے جائے گی (مہر علی ایہہ جھوک فناہ دی ۔۔۔۔قائم دائم ذات خدا دی۔۔۔تیری وسدی وی جھل پل دی اے۔۔لایا مہندی خون اجل دی اے) قرآن مجید کا بنیادی موضوع انسان ہے اور یہ کتاب کتاب ہدایت ہے۔ تغیرات زمانہ کے تابع ہونے والی تبدیلیوں کا بار بار ذکر کر کے ابن آدم کو دعوت فکر دی گئی ہے۔ انسان کی حقیقت کہ وہ پانی کے ایک قطرے سے تخلیق کیا گیا ہے۔ وہ تو اپنی مرضی سے پانی کا گلاس بھی نہیں پی سکتا۔ اس کی کیا مجال کہ وہ دم مار سکے۔ کتاب مبین نے بینات کی پوری تفصیل بتائی ہے۔ بڑی بڑی طاقتور اورنامور قوموں کے تفصیلا تذکرے اور ان کے حالات زندگی اور وہ بھی فصاحت و بلاغت کے ساتھ۔ آخر پر ان کے انجام اور یہ وضاحت کہ کس کس طرح متذکرہ بالا قومیں قصہ پارینہ بن گئیں۔ چند یوم قبل قلعہ ہرڑند دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کوہ سلیمان سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قلعہ کے آثار۔ عمارت کا کچھ حصہ ابھی تک موجود۔ خصوصا جیل نما کمرہ جس میں سلاخوں والے دروازے آج بھی اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ ظل سبحانی کی طبع نازک پر جب اپنے ہی ہم جنسوں کی کوئی بات گراں گزرتی تھی تو ان پر غیض و غضب کی بجلی گرا دی جاتی تھی اور ان کو فوری طور پر پابند سلاسل کردیا جاتا تھا۔ مذکورہ قلعہ میں اصلی حالت میں صرف یہ قید خانہ ہے باقی عمارت کا بالکل صفایا ہو چکا ہے اور صفایا صرف سٹرکچر تک محدود نہیں ہے۔ اس کی تاریخ بھی وہاں کے موجودہ مکینوں کے اذہان سے محو ہو چکی ہے شاید اسی موقعہ کے لئے حضرت اقبال نے فرمایا تھا( تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں) ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال،لیلی مجنوں،سیہتی مراد، یوسف زلیخا اور بیشمار اس قسم کی داستانیں زبان زد خاص وعام بھی ہیں اور مقبول عام بھی ۔ پیار، محبت، اخلاص اور عشق کو دوام ہے اور جبر، ظلم، طاقت، حکومت اور زورا زاری چند دن کی کہانی ہے اور پھر کوئی اعتماد سے کچھ نہیں کہہ سکتا ہے۔ ہرڑند کی کیا تاریخ ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے۔ کہتے ہیں ہری نند داجل دو بھائی تھے۔ کہاں سے یہاں پہنچے کیسے پہنچے کب پہنچے۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ اس خوبصورت علاقے کی بھی ایک پوری تاریخ ہے جو آج تک کے وسنیکوں تک پہنچتے پہنچتے بھولی بسری کہانی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس کے باوجود آج بھی ایک صحابی اور ایک حضرت علی کے بیٹے کے مزارات اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں، اللہ اعلم صحابی ہیں یا حضرت علی ہی کا بیٹا ہے یا کوئی دیگر بزرگ ہیں۔ یہ مزارات لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ شاید اللہ تعالی اپنے مقبولین کو ہی مرجع خلائق بناتے ہیں اور حکمرانوں کے محل عبرت کا نشان بن جاتے ہیں تاکہ عام بندے اور اللہ کے بندے میں واضح فرق نظر آئے۔ فطرت کا بھی ایک اپنا مزاج ہے اس پورے علاقے کو رودکوئیوں نے بھی بڑا متاثر کیا ہے۔ ہر سال جب بھی کوہ سلیمان پر بادل کھل کر برستے ہیں تو مذکورہ رود کوئیاں بے قابو ہو جاتی ہیں اور پھر نسل انسانی کی نقل مکانی اور وہ بھی وسیع لیول پر۔ سارا انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔ ہرمحکمہ اپنے اپنے اعداد وشمار سیدھے پدھرے کر لیتا ہے۔ ہری نند کا مسکن ہرڑند ویسے کا ویسا۔ کتنی بستیاں تہ و بالا ہو گئیں کتنے انسان لقمہ اجل بن گئے اور اس کرہ ارض پر دیکھتے ہی دیکھتے کیا کچھ ہو گیا۔ قرآن ایسی مثالیں دے کر ہی تو ہمیں قادر مطلق کا پتہ دیتا ہے اور ہم کو کچھ کرنے کے لئے جھنجھوڑتا ہے۔ ہم ہیں کہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم قدیم اور جدید میں فرق کرنے کے موڈ میں ہی نہیں ہیں۔ جو قوم جدیدیت سے دور بھاگتی ہے اس کا سارا کچھ ایک وقت آنے پر محکمہ آثار قدیمہ کی ملکیت ہو جاتا ہے اور اگر محکمہ آثار قدیمہ بھی ترقی یافتہ اقوام کے رجحانات سے پوری طرح آگاہ نہ ہو تو ہرڑند قلعہ یقییننا زمین بوس ہوگا اور پھر آہستہ آہستہ قبضہ گروپوں کے نرغے میں چلا جائیگا۔ بھلا ہو کوہ سلیمان کا جس سے اترنے والا بارش کا پانی ابھی تک لاوارث زمین پر نظر رکھنے والوں کے پائوں نہیں لگنے دے رہا ہے۔ سردست تو قلعہ ہرڑند ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے کہ اے پاکستان کے باسیو معاشرتی بگاڑ سے بچ جاو۔ اپنے وقت کے زمینی حقائق سے پوری طرح آگاہ ہو جائو۔ ماضی اور حال کا منقطع رابطہ بحال کر کے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے فوری طور پر سنجیدہ ہو جاو۔ جوشیلے اور اکھڑ جوان اپنا ہی نقصان کرنے کی بجائے حقائق کا سامنا کریں اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیں۔ انصاف کے حصول کے لئے شواہد کی ضرورت ہوتی ہے اور شواہد اکٹھے کرنے کیلئے انتہائی محنت کی ضرورت ہے۔ محنت کے لئے نیک نیتی چاہیے۔ میں نہ مانوں کی پالیسی نے ہی ہرڑند کے پر شکوہ قلعوں کو کھنڈروں میں بدلا ہے۔ سوچو ذرا سوچو بلکہ غور سے سوچو اور سوچتے چلے جائو۔ سوچ سمجھ کر چلنے والے نئی نئی عمارتوں کی بنیاد رکھتے ہیں اور ہرڑند جیسی عمارتوں سے سبق سیکھتے ہیں۔ اور اس سبق کی روشنی میں آج کے بچوں کے لئے عصری تقاضوں کے مطابق سلیبس ترتیب دینا ہو گا اور پھر ان کو حب الوطنی کا سبق یاد کروانا پڑے گا۔ تاکہ ہم جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں