پتنگ بازی ایک کھیل ہے جسے ہم بچپن سے دیکھتے اور کھیلتے چلے آ رہے ہیں مگر دھاتی ڈور کے استعمال نے اس کو خونی کھیل بنا دیا اور بدلتی رت کا یہ تہوار لوگوں کے لیے درد سر بن چکا ہے، ایک زمانہ تھا کہ بسنت پر پتنگ بازی ہوتی مگر لوگوں کی جان ومال کو کوئی خطرہ نہ ہوتا مگر اب منچلوں کی جانب سے پتنگ بازی کے دوران دھاتی ڈور کے استعمال اور بسنت منانے کے دوران کی جانیوالی خرافات سے لوگوں کی جان ومال محفوظ نظر نہیں آتی، پتنگ کی ڈور کی ایک چرخی کے مختلف ریٹس بتائے جاتے ہیں، ایک قسم کی چرخی تین ہزار سے چھ ہزار جبکہ دوسری قسم کی چرخی 10ہزار سے 20ہزار روپے تک دستیاب ہونے کی اطلاع ہے جبکہ ایک گولی کی قیمت 70 روپے ہے، مجھے اُمید تھی امسال بسنت پر پتنگ بازی اور ہوائی فائرنگ نہیں ہو گی کیونکہ یہ لوگ یہ خرچے برداشت نہیں کر سکیں گے کیونکہ غربت’ مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفانوں نے پہلے ہی لوگوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے مگر اس بار بھی فیصل آباد میں بسنت دھوم دھام سے منائی گئی اور وہ علاقے جن کاموجودہ مسئلہ مہنگائی’ غربت اور بیروزگاری ہے وہ اس غیر قانونی، غیر اخلاقی کام میں نمایاں رہے، بسنت منانے والوں نے لائٹنگ’ ڈیک لگا کر تیز آواز میں گانے چلانے’ کھابوں’ پتنگوں’ ڈور کی خریداری اور ہوائی فائرنگ کے لیے بے تحاشہ اخراجات کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی’ ان خرافات کا ذمہ دار کون ہے، یہ وہ سوال ہے جو ہر ذی شعور کے ذہن میں گونج رہا ہے اور لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں، بلاشبہ حکومتی ناقص پالیسیوں اور سیاستدانوں کی آپس میں لڑائی نے ملکی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا، اس وقت وہ علاقے جہاں کم آمدنی والے لوگ آباد ہیں وہاں عام لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی تو درکنار ایک وقت کا کھانا بھی مشکل بن چکا ہے اور موجودہ حکمران ان حالات سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے ترلے منتیں کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ہم خرافات کو نہ چھوڑتے ہوئے فضول خرچی کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور سوچنے کی بات ہے کہ ان خرافات کیلئے پیسے کہاں سے آ رہے ہیں، فیصل آباد میں بسنت منانے کے نام پر دھاتی ڈور کا استعمال کیا گیا ہے، دھاتی ڈور کی تیاری پر پابندی کے باوجود منچلے باز نہیں آ رہے اور اس کے استعمال سے کئی لوگوں کا موت کے منہ میں چلے جانا بھی ان کو راہ راست پر نہیں لا سکا، اس وقت معاشرے کی زوال پذیرائی کی ایک بڑی وجہ قانون پر عملدرآمد نہ کرنا اور دوسروں کی جان ومال کو درپیش خطرات کے باوجود اپنی بے حسی پر قائم رہنا ہے، ترقی یافتہ ممالک اور پاکستانی قوم میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ہماری نسبت وہ لوگ قانون کی پاسداری کرتے ہیں جبکہ ہم حکومتی پابندی کی خلاف ورزی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کیلئے آج تک کسی بھی حکمران نے کوئی ایسا طریقہ یا حکمت عملی وضع نہیں کی جس سے ملک میں ایک باشعور معاشرہ تشکیل پائے اور ہر فرد اس کا ایک مفید رکن بن سکے، افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے لوگوں کیلئے خوشیوں کا باعث بننے والے تہوار کو بھی خونی تہوار بنا دیا ہے، گزشتہ جمعتہ المبارک کو بسنت کے موقع پر فیصل آباد میں ہوائی فائرنگ کے باعث اندھی گولیاں لگنے اوردھاتی ڈورپھرنے کے واقعات کے دوران ایک نوجوان جاں بحق جبکہ درجنوں شدید زخمی ہوکر ہسپتالوں میں پہنچ گئے’فیصل آباد میں بسنت کے موقع پر ہوائی فائرنگ کی تڑتڑاہٹ سے شہر گونجتا رہا’شہربھر میں پتنگ بازوں اورپولیس کے مابین آنکھ مچولی کا سلسلہ بھی جاری رہا’سمن آباد کے علاقہ میں اندھی گولی لگنے سے 15سالہ عبدالصمد جان کی بازی ہارگیا جبکہ درجنوں افراد اندھی گولیاں لگنے سے ہسپتالوں میں پہنچے’اگرچہ پولیس کی جانب سے پتنگ بازی اورہوائی فائرنگ کرنیوالوں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی گئی مگرمحدود نفری کے باعث پولیس کہاں کہاں پہنچتی’بسنتمنانے والے غربت’مہنگائی اوربیروزگاری کی ”دہائی”بھی دیتے ہیںاور ان لوگوں نے غیرقانونی’غیراخلاقی کام پرکتنے پیسے اڑا دیئے اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ لوگوں کی جان ومال کیساتھ کھیلنے سے بھی گریزنہیں کیاگیا’بسنت کے موقع پر پانی کی طرح پیسہ بہانے والوں سے اگر عیدالاضحی کے موقع پر قربانی دینے کا کہا جائے تووہ اپنی محرومیوں کارونا دھونا شروع کردیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم قربانی کیسے دیں ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں’کسی غریب مستحق کی مدد کرنیکا بھی ایسے لوگوں کوکبھی خیال نہیں آیا مگربسنت مناتے ہوئے خرافات پرپیسے کا بے دریغ استعمال ان کی عادت بن چکا ہے’بسنت منانے والوں نے ہوائی فائرنگ’ہلہ گلہ اورڈیک لگا کر گانوں پر رقص کرتے ہوئے ہمسایوں کے حقوق کو بھی پامال کیا اور ان کیلئے شدید پریشانی کا باعث بنے جبکہ بعض علاقوں میں منچلوں نے مساجد میں نمازجمعہ کے خطبات کے دوران بھی اپنی بدتمیزیوں کا سلسلہ جاری رکھا جس پر لوگوں میں سخت غم وغصہ پھیل گیا،”منچلوں”نے بسنت مناتے ہوئے من مانیوں کی ”حد”کرتے ہوئے اپنی خرافات کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پراپ لوڈ بھی کر دیں’ ذرا سوچئے! اس وقت معاشی بحران کے باعث ہمارا کیا حال ہو چکا ہے مگر ہم اپنی عادتیں نہیں بدل رہے’ سابق دورحکومت میں عوام کو مہنگائی کے طوفان نے دن میں تارے دکھا دیئے جبکہ موجودہ حکمرانوں کے اقدامات دیکھ کریوں گمان ہوتا ہے کہ انہیں لوگوں کے مشکلات سے دوچارہوجانے کی کوئی پرواہ نہیں ہے’موجودہ حکمران معیشت کومضبوط بنانے اور مہنگائی میں کمی کے دعوے کرکے اقتدار میں آئے مگرانہوں نے عام آدمی کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے’حالات کی سنگینی کا سیاستدانوں کو احساس ہے نہ عام آدمی کو اس کی کوئی فکر ہے ورنہ سیاستدان مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرتے اور لوگ بسنت مناتے ہوئے اس طرح کے طرزعمل کا مظاہرہ کرتے نظر نہ آتے اب یہ سوال ذہن میں ابھررہا ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں اپنے شکنجے میں کیوں نہ جھکڑے’کاش تمام سیاسی رہنما اورعوام موجودہ صورتحال سے نجات کیلئے اپنی اپنی ذمہ داریوں کااحساس کریں بے شک!موجودہ بحرانوں کو اتحاد واتفاق کے ذریعے اقدامات اٹھا کر ہی حل کیا جا سکتا ہے اوراگرہم خلوص دل سے اپنی توجہ اس جانب مبذول کرلیں توکامیابی ہمارا مقدر بنے گی۔
34